طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے حوالے سے متضاد اطلاعات کی وضاحت کی جائے ‘قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کا مطالبہ

جمعرات 30 جولائی 2015 15:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جولائی۔2015ء) قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے حوالے سے متضاد اطلاعات کی وضاحت کی جائے جبکہ اراکین اسمبلی نے کہا ہے کہ جرگے کی جانب سے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے متعلق فیصلہ کی قانونی حیثیت بارے بتایا جائے ‘ اسلام آباد میں کچی آبادیوں میں آپریشن کر کے پختونوں کو تنگ کیا جارہا ہے ‘ اسلام آباد میں کچی آبادیوں کے مکینوں کی بستی خالی کرانے سے پہلے متبادل جگہ فراہم کی جائے ‘ چترال میں کئی سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک امداد نہیں پہنچ سکی، جہاز کے ذریعے مدد کی جائے ۔

حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، متاثرین کی مدد کے لئے خوراک اور دیگر اشیاء کا وافر ذخیرہ موجود ہے ‘ متاثرہ علاقوں میں پانی کا ریلہ کم ہوتے ہی ریلیف سرگرمیوں کو مزید تیز کر دیا جائیگا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے عوامی اہمیت کے معاملہ کے نکتہ پر ایم کیو ایم عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ ملا عمر کے حوالے سے متضاد اطلاعات کی وضاحت کی جائے، سیلاب کی تباہ کاریوں پر بحث کی جائے۔

رمیش لعل نے کہا کہ لاڑکانہ کے چار لوگ سوات گئے تھے جو حادثہ میں ڈوب گئے ان کی لاشیں بازیاب کرائی جائیں سپیکر نے ہدایت کی مسئلہ حل کرانے کیلئے خیبرپختونکوا حکومت کے ساتھ رابطہ کیا جائے ساجد احمد نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن ہو یا قومی الیکشن خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا یہ جو جرگہ یہ فیصلہ کرتا ہے اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں بتایا جائے دیر اور ہنگو میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے، وہاں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔

سپیکر نے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ دیر اور ہنگو میں جہاں خواتین ووٹ ڈالنے سے روکا گیا الیکشن کمیشن سے معلومات حاصل کر کے ایوان کو بتایا جائے عبدالقہادر ودان نے کہا کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی کچی آبادی میں آپریشن کیا گیا ملک بھر میں پختونوں کو تنگ کیا جا رہا ہے، قیام پاکستان سے قبل یہاں آباد پختونوں کے شناختی کارڈز بلاک کر دیئے گئے، ایسے کاغذات طلب کئے جاتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہوتے۔

جواب میں وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ ملک بھر میں جہاں بھی قیام امن کے لئے آپریشن ہو رہے ہیں وہ کسی مخصوص قوم یا سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے، ہمارے اقدامات سے امن کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس کو چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے بھی تسلیم کیا انہوں نے کہا کہ صرف ان لوگوں کے شناختی کارڈ نہیں بن سکتے جو افغانستان کے شہری ہیں، مگر جن لوگوں کے نام یا کسی اور تفصیل میں کوئی تضاد آتا ہے تو سسٹم کارڈ بلاک کر دیتا ہے۔

عائشہ سید نے مطالبہ کیا کہ جن جن سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک کی قلت ہے وہاں خوراک پہنچائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سوات اور مالاکنڈ کے علاقوں میں کم وولٹیج کی وجہ سے ریفریجریر نہیں چل سکتے جس سے پولیو ویکسین کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، اسلام آباد میں کچی آبادیوں کے مکینوں کی بستی خالی کرانے سے پہلے متبادل جگہ فراہم کی جائے۔

غوث بخش مہر نے کہا کہ ان کے حلقہ کے دو بھائیوں کو گرفتار کر کے ان پر ایک کلو چرس کا مقدمہ بنایا گیا ہے اس کا نوٹس لیا جائے، پولیس کے اعلیٰ افسرا ہماری بات نہیں سنتے۔

سپیکر نے وزیر مملکت بلیغ الرحمن کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر صوبائی حکومت سے رابطہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو پولیس افسران ارکان اسمبلی کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے انہیں چیمبر میں طلب کر کے باز پرس کی جائے گی۔ مسرت احمد زیب نے کہا کہ مینگورہ چکدرہ شاہراہ پہلے سے کارپٹ روڈ تھی مگر دوبارہ ٹینڈر میں غلط میٹریل استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔ وزیر مملکت برائے شیخ آفتاب احمد نے فاضل رکن کو یقین دلایا کہ چکدرہ مینگورہ شاہراہ کے معیار پر تحقیقات کرا کے ایوان میں پیش کر دی جائے گی۔ مزمل قریشی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں مگر کراچی میں نادرا کے دفاتر کم ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ کے حصول میں لوگوں کو دشواری کا سامنا ہے، موبائل وین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

مولانا محمد گوہر شاہ نے کہا کہ چترال میں کئی سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک امداد نہیں پہنچ سکی، جہاز کے ذریعے ان کی مدد کی جائے۔ مراد سعید نے کہا کہ چکدرہ سے کالام تک این فائیو شاہراہ کی تعمیر اور مرمت کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، سوات کی ٹورازم اس سے متاثر ہو رہی ہے، سوات کے علاقے کے طلباء سے بھی ایف بی آر 5 فیصد ٹیکس کا مطالبہ کر رہی ہے حالانکہ یہ علاقہ ٹیکس فری ہے ان امور کا نوٹس لیا جائے۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ راولپنڈی میں 430 بستروں کا ہسپتال زیر تعمیر تھا، اس پر 6 ارب روپے لگا چکے ہیں اس پر کام رکا ہوا ہے، حکومت فنڈز فراہم کرے۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ وہ ملینیم ڈویلپمنٹ سٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں، آئندہ اجلاس میں وہ راولپنڈی کے ہسپتال کا معاملہ اٹھائیں گے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ خواتین کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، چکدرہ سے چترال تک شاہراہ کی حالت بھی بہت ناگفتہ بہ ہے اس کا بھی نوٹس لیا جائے۔

عبدالستار باچانی نے کہا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہر رکن اسمبلی کے حلقہ کے لئے پانچ پانچ کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں دیئے جائیں گے، ہمیں مساوی بنیادوں پر فنڈز فراہم کئے جائیں۔

کنور نوید جمیل نے کہا کہ کراچی میں بجلی کے بریک ڈاؤن سے سینکڑوں اموات واقع ہوئی ہیں، اب بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے جس سے پانی کی فراہمی بھی معطل ہو جاتی ہے، وفاقی حکومت اس مسئلے کو حل کرانے کے لئے کے الیکٹرک کے ساتھ بات کرے۔

تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ملا عمر کے حوالے سے حکومت کی جانب سے اخبارات میں خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے بیان دینا چاہی، پارلیمنٹ کو اس معاملے پر تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ صاحبزادہ فیض الحسن نے کہا کہ ان کا حلقہ این اے 181 دریائے سندھ کے کنارے پر ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں سے لوگوں کا بے انتہا نقصان ہوا ہے، نقصانات کا ازالہ کیا جائے، ایک بند تعمیر کرنے سے بہت سی بستیاں تباہی سے بچ جائیں گی۔

اسد عمر نے کہا کہ اسلام آباد کے کچی آبادی کے مکین سراپا احتجاج ہیں، یہ انسانی مسئلہ ہے اس کا سیاسی حل نکالا جائے۔ عمران ظفر لغاری نے کہا کہ کراچی سے نیویارک جانے والی پی آئی اے کی پرواز کا رخ سعودی عرب کی جانب کیوں موڑ دیا گای اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ محمد جمال الدین نے کہا کہ پولیس کا رویہ قبائلیوں کے ساتھ امتیازی ہوتا ہے جو لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں انہیں رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے، ہمیں بلاک شناختی کارڈز کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا ہے، ان کیسوں کی تحقیقات کے لئے مدت مختص کی جائے اور اس مسئلہ کا کوئی جامع حل نکالا جائے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے قبائلیوں کی بھی مدد کی جائے۔

سلیم الرحمن نے کہا کہ سوات میں بجلی کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے، وولٹیج انتہائی کم ہے، ایک نیا گرڈ سٹیشن بنایا جائے۔شیر اکبر خان نے کہا کہ مردان گرڈ سٹیشن کا ٹرانسفارمر اوور لوڈ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے، اس کا نوٹس لیا جائے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے اضلاع کے لئے سابق حکومت نے جو فنڈز دیئے تھے، اب سپریم کورٹ نے فنڈز خرچ کرنے کا حکم دیا ہے، میرے ضلع میں یہ فنڈز خرچ نہیں ہو رہے اس کا نوٹس لیا جائے، کوہاٹ تک ریل کار چلائی جائے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں سید نوید قمر نے سندھ میں تباہ کن بارشوں اور ان سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں این ڈی ایم اے کی جانب سے وسائل کو متحرک نہ کرنے سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ویسے تو پورا ملک ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے، دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس کی وجہ ہیں، چترال میں 1998ء کے بعد 2013 اور اب 2015ء میں سیلاب آیا، موسمیاتی تبدیلیاں بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کو پریشان کر رہی ہیں، دنیا کے سرمایہ کاروں نے فاصل ایندھن استعمال کئے جس سے دنیا کے موسموں کو بدل کر رکھ دیا ہے، پاکستان کو بارشوں اور سیلاب سے 26 ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، ہم گلیشیر کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں، حدت سے یہ پگھلتے ہیں۔

وزیراعظم نے چترال سمیت متاثرہ علاقوں کے دورے کئے، این ڈی ایم اے کا صرف پالیسی کا کردار رہ گیا ہے، اس کے باوجود انہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ایک دو دن خطرے کے ہیں، اللہ خیر کرے، ہم سب کو مل کر اس صرتحال کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ملک کے کسی بھی صوبہ میں ہماری جو مدد درکار ہو گی ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سندھ حکومت کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لئے وافر مقدار میں سامان فراہم کر دیا گیا ہے، سیلاب کی شدت کم ہو گی تو ریلیف کی سرگرمیاں موثر انداز میں شروع ہوں گی، این ڈی ایم اے نے 6 ماہ کے لئے ای جی ایم ڈبلیو ایف سسٹم نصب کیا ہے، جو اس حوالے سے ہمیں پیشگی اطلاع دے گا، سندھ اور اسلام آباد میں جائیکا کی مدد سے سسٹم ستمبر میں کام شروع کر دے گا، چند ممالک نے کاربن اور میتھین استعمال کر کے گلوبل وارمنگ پیدا کی۔

انہوں نے مال بنا کر ساری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے، ہمیں دنیا کے ساتھ بات کرنی چاہیے کہ درد انہوں نے دیا ہے تو دوا بھی انہیں ہی کرنی چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ شامیانے فراہم کرنے کا کام پی ڈی ایم اے کا ہے، تاہم این ڈی ایم اے کو اس سے بھی زیادہ کام کی ہدایت کریں گے۔