افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی موت دو یا تین سال پہلے ہو چکی ہے ‘ بی بی سی کا دعویٰ …… افغان صدر کی تصدیق

بدھ 29 جولائی 2015 16:27

لندن /کابل (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جولائی۔2015ء) بی بی سی نے افغان حکومت اور انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی موت دو یا تین سال پہلے ہو چکی ہے ‘ تاہم افغان طالبان نے ملا محمد عمر کی موت کی تصدیق یا ترید کر نے سے انکار کرتے ہوئے دعوے کے حوالے سے جلد ہی بیان جاری کر نے کا اعلان کیا ہے ‘ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی جبکہ فارسی کی ایک ویب سائٹ نے کہا ہے کہ طالبان میں بغاوت کے بعد ملا محمد عمر کو مخالف دھڑے کے رہنماؤں ملا اختر محمد منصور اور گل آقا شامل تھے انہوں نے ہی ملا عمر کو قتل کرایا ۔

بدھ کو بی بی سی کے مطابق افغانستان میں حکام نے بتایا کہ افغان طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر ہلاک ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک افغان طالبان نے اس دعوے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

(جاری ہے)

افغان حکومت اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق گذشتہ کئی برس سے مسلسل روپوشی کی زندگی گزانے والے طالبان رہنما ملا عمر کی دو یا تین سال پہلے موت واقع ہو چکی ہے اطلاعات پر افغان طالبان کے ترجمان سے بی بی سی نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ اس بارے میں جلد ہی بیان جاری کیا جائے گا ایک نجی ٹی وی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے بھی ملا محمد عمر کی ہلاکت کی تصدیق کی بی بی سی کے مطابق ماضی میں بھی ملا عمر کی ہلاکت کی متعدد بار خبریں آ چکی ہیں بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ افغانستان کے کسی اعلیٰ ترین نے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کی چند دن پہلے ہی عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں ملا عمر نے افغانستان میں امن کیلئے بات چیت کرنا جائز قرار دیا تھا تاہم انھوں نے پچھلے ہفتے پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان رہنماوٴں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔

یاد رہے کہ ملا عمر نے 1978 میں افغانستان میں روس کی مداخلت کے خلاف مسلح جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔1992 میں افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد ملا عمر کی قیادت میں ہی طالبان نے 1996 تک تم گروپس کو کنٹرول کرکے اپنی حکومت قائم کی تھی افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد 1996 میں ملا عمر کو امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھاخطاب کے بعد عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سمیت پاکستان اور افغانستان کی تمام چھوٹی بڑی عسکری تنظیمیں اور مسلح گروہ ملا عمر کو اپنا امیر مانتے رہے ملا عمر کی 1996 سے 2001 تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کی سربراہ رہے 2001 میں 11 ستمبر کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے مبینہ حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا طالبان کے خلاف امریکا کے ساتھ نیٹو نے جنگ میں حصہ لیا2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد سے ملا عمر منظر عام پر نہیں آئے وہ ذرائع ابلاغ کو اپنا انٹرویو یا تصویر دینے سے بھی گریز کرتے ہیں

اور اس طرح طالبان کے سربراہ ملا عمر گذشتہ 14 سالوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے گذشتہ کچھ عرصہ سے عسکری تنظیموں میں ملا عمر کے زندہ ہونے یا مرنے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں بالخصوص عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے سرگرم ہونے اور ابوبکر بغدادی کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد سے یہ سوالات مزید زور پکڑنے لگے ہیں افغانستان میں بعض طالبان کمانڈروں نے ملا عمر کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ کو جواز بناتے ہوئے دولت اسلامیہ میں شمولیت کا اعلان کیا تھاافغان طالبان کی جانب سے حال ہی میں ملا عمر کی ایک سوانحی عمری بھی شائع کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ملا عمر کہاں ہیں تاہم وہ افغانستان اور دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے واقعات سے مطلع رہتے ہیں سوانح عمری کے مطابق ملا عمر کی پیدائش 1960 میں ملک کے جنوبی صوبے قندھار کے ضلع خاکریز کے چاہِ ہمت نامی گاوٴں میں ہوئی تھی تحریر میں طالبان اپنے سپریم لیڈر کا ذکر ملا محمد عمر’مجاہد‘ کے نام سے کرتے ہیں اور اس میں کہا گیا کہ وہ ہوتک قبیلے کی شاخ تومزئی سے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ان کے والد مولوی غلام نبی ایک ’معزز عالم اور سماجی شخصیت‘ تھے اور ملا عمر کی پیدائش کے پانچ سال بعد ہی وہ وفات پا گئے تھے جس کے بعد ان کا خاندان صوبہ ارزگان منتقل ہوگیا تھاسوانح میں کہا گیا کہ سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد ملا عمر ’مذہبی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے مدرسے میں جاری تعلیم چھوڑ کر جہادی بن گئے۔

تحریر کے مطابق 1983 سے 1991 کے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملا عمر چار بار زخمی ہوئے اور ان کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہوگئی۔1994 میں ملا عمر نے جنگی سرداروں کے درمیان قبائلی لڑائی سے نمٹنے کے لیے مجاہدین کی قیادت کی اور وہ طالبان کے سپریم لیڈر بن گئے امریکا نے طالبان سربراہ ملا محمد عمر کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر انعام مقرر کر رکھا تھا۔

خیال رہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کے اس سے قبل بھی متعدد بار رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں اور عمومی طور پر رپورٹس غلط ثابت ہوئیں۔واضح رہے کہ 6 روز قبل افغانستان کے خبر رساں ادارے خامہ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ملا عمر کو طالبان کے ہی سینئر لیڈرز نے قتل کیا تھارپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ملا عمر کو طالبان کمانڈر ملا محمد اختر اور گل آقا نے ہلاک کیا تھاطالبان سے الگ ہونے والے ایک گروہ افغانستان اسلامی تحریک فدائی محاذ کی جانب سے اپنی ویب سائٹ میں جاری بیان میں ترجمان قاری حمزہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان سربراہ کو 2 سال قبل قتل کیا جا چکا ہے تاہم فارسی کی ایک ویب سائٹ نے بھی یہی دعویٰ کیا کہ ملا عمر کو طالبان میں بغاوت کے بعد مخالف دھڑے نے قتل کیا حرکت اسلامی محاذ فذائی نامی طالبان دھڑے نے ملا عمر کے خلاف بغاوت کی تھی رپورٹ کے مطابق ناراض ساتھیوں میں ملا اختر محمد منصور اور گل آقا شامل تھے انہوں نے ہی ملا عمر کو قتل کرایا ۔

متعلقہ عنوان :