ملک میں تباہی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، اگر ہم اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں تو بتایا جائے تمام فائلیں بند کر دیں گے،جسٹس جواد ایس خواجہ

بدھ 29 جولائی 2015 14:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جولائی۔2015ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں غیر قانونی این جی اوز کے مقدمے کی سماعت لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی میٹنگ کی وجہ سے ایک ہفتے کے لئے موخر کر دی۔ دوران سماعت بدھ کے روز دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں ملک کے تمام اداروں نے کچھ نہیں کیا جو کچھ بھی کرنا ہے لگتا ہے کہ اب سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے ۔

پولیس نے مقدمہ درج نہیں کرنا ، این جی اوز کے حوالے سے حکومت نے کچھ نہیں کرنا ۔ پھیپھڑوں کے امراض سے لوگ مر جائیں کسی نے کچھ نہیں کرنا ۔ یہ سب بھی عدالت نے کرنا ہے اگر ہم اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں تو بتایا جائے ہم تمام فائلیں بند کر دیں گے ۔ نیشنل ایکشن پلان کو آئے 7 ماہ 4 دن ہو گئے حکومتوں نے نہ کچھ کرنا ہے اور نہ کچھ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

ملک میں تباہی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔

جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے ہیں غیر ملکی این جی اوز کی تحقیقات ملک میں داخلے سے قبل ہی ہو جانی چاہیئے تھیں یہ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کیا کر رہا ہے این جی اوز کی تمام تر سرگرمیاں مانیٹر ہونی چاہئے آپ نے پاکستان کو میکسیکو بنایا ہوا ہے جس مافیا کا جی چاہتا ہے پاکستان میں آ جاتا ہے ۔ فنڈنگ دشمن کر رہا ہو یا کوئی اور اس کا کسی کو علم تک نہیں ۔

اگر ایک گولی بھی غیر ملکی فنڈنگ سے خریدی گئی اور اس سے ہمارا سپاہی شہید ہوا ہو تو اس حوالے سے اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن پیش ہو ئے اور انہوں نے رپورٹ پیش کرنا تھی مگر چیف جسٹس کی زیر صدارت ہونے والے اہم اجلاس کی وجہ سے پیش نہ کر سکے ۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی مکمل رپورٹ جمع نہیں کرائی ۔

پنجاب حکومت کی طرف سے رزاق اے مرزا نے بتایا کہ پنجاب میں 47 ہزار 403 این جی اوز کام کر رہی ہیں ۔ 13482 مدارس ہیں این جی اوز کو 31 فیصد بیرونی فنڈنگ مل رہی ہے ۔

69فیصد مقامی لوگ فنڈنگ کر رہے ہیں ۔ باقی صوبوں نے رپورٹ پیش نہ کی ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں 4 کالعدم تنظیموں کو بین کیا گیا ہے جن میں رحمت ٹرسٹ ، الرشید ٹرسٹ ، انصاریہ اور سپاہ صحابہ شامل ہیں ۔

داعش کو بھی 24 جولائی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں محترک نہیں ہیں ہر جگہ تباہی مچ رہی ہے جب تک بنیادی معلومات نہیں ہوں گی تو کچھ بھی نہیں ہو سکے گا ۔ بلوچستان کی طرف سے لاء افسر پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی معلومات نہیں آ سکی ہیں ۔ اشتہار دیا تھا کہ این جی اوز اپنا آڈٹ کرائیں اس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان پرامن صوبہ ہے دور دور تک خرابی کے کوئی آثار نہیں ہے ۔

حکومت اخبار میں لکھ دیتی ہے لوگوں آؤ کہ آپ کا پیسے کہاں سے آیا؟ بلوچستان میں کسی کو معلوم نہیں کہ فنڈنگ کہاں سے آ رہی ہے تمام چیف سیکرٹریز پر واضح کیا جائے کہ معاملہ انتہائی احساس ہے ۔ کے پی کے میں 10 ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں ابھی تک صرف ایک ادارہ سامنے آیا ہے وہ بھی چیک باؤنس ہوا تو پتہ چلا تھا ۔ ایف آئی آر درج ہوئی اور ضمانت کی وجہ سے معاملہ ہمارے سامنے آیا ۔

9999 جو دوسرے ادارے کام کر رہے ہیں ان کے بارے کیا رپورٹ ہے وکیل نے بتایا کہ تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کے 24 اضلاع ہیں ہر ضلع کی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے ۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے ایک فارم بنایا ہے اس کے تحت ہی معلومات عدالت کو دی جائیں ۔ یہ فارم چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی دیا جائے ۔ عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھوایا کہ نجی بنک میں 8 کروڑ روپے آئے اور یہ رقم عالمی ادارہ صحت نے بجھوائی ۔

عدالت نے پوچھا کہ یہ کس اکاؤنٹ کے تحت رقم آئی اور اس کا عنوان کیا تھا؟ تو بتایا گیا کہ اس کا عنوان تاحال معلوم نہیں ہو سکا ۔ عدالت نے کہا کہ اتنا عرص ادارے کیا کرتے رہے ہیں کہ اتنے عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اکاؤنٹ کا عنوان تک معلوم نہیں کر سکے ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کالعدم تنظیموں کو اپ نے پابندی لگا دی کیا آپ نے ان کو بھی شریک مجرم بنایا ہے جن کی دکانوں پر تنظیموں کے چندے کے ڈبے رکھے گئے ہیں ۔ بعدازاں عدالت نے لا ء اینڈ جسٹس کمیشن کے اجلاس کی وجہ سے سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔ ۔

متعلقہ عنوان :