مظفر گڑھ: پولیس مقابلہ ، کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق اور اس کے 2 بیٹوں سمیت 16 دہشت گرد ہلاک ،6 اہلکار زخمی

بدھ 29 جولائی 2015 12:33

مظفر گڑھ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جولائی۔2015ء) مظفر گڑھ کے علاقہ شاہ والا میں پولیس کے زیر حراست 6 دہشت گردوں کو چھڑانے کی کوشش کے دوران مبینہ پولیس مقابلے میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک محمد اسحاق اور ان کے دو بیٹوں سمیت 16 اشتہاری ملزمان ہلاک ہو گئے جبکہ فائرنگ کے تبادلہ میں ایلیٹ فورس کے چھ اہلکار بھی زخمی ہوئے ۔

واقعے کے بعد مظفر گڑھ اور ملحقہ اضلاع میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ۔پولیس حکام کے مطابق بدھ کے روز مظفر گڑھ کے علاقے شاہ والا کے قریب پولیس اور کالعدم تنظیم کے مسلح دہشت گردوں کے درمیان اس وقت فائرنگ کا تبادلہ ہوا جب پولیس ملک اسحاق جنہیں چھ روز قبل 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا تھاان کے دو بیٹوں اور دیگر تین ساتھیوں کے ہمراہ اسلحہ کی نشاندہی کرانے کے لئے مظفر گڑھ لایا جا رہا تھا کہ جب پولیس وین شاہ والا کے قریب پہنچی تو وہاں پر موٹر سواروں نے پولیس کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی نہ رکنے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔

(جاری ہے)

مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس حراست میں موجود چھ ملزمان جن میں لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق ان کے دو بیٹے عثما ن اور حق نواز ، غلام حسین شاہ ، ادریس شاہ اور غلام رسول مارے گئے ۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں دس حملہ آور بھی مارے گئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں سے دو کا تعلق مظفر گڑھ کے علاقے علی پور سے ہے ۔ محکمہ انسدادی دہشت گردی کا کہنا ہے کہ پولیس کے زیر حراست چھ دہشت گردوں کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ دیگر دس افراد کی شناخت کے لئے نادرا اور دیگر اداروں سے مدد لی جا رہی ہے ۔

حکام کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے ان دس افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان اور القاعدہ سے تھا ۔ پولیس مقابلے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے نے حملہ آور ملزمان کے قبضے سے دو کلاشنکوفیں ، 12 پستول ، 400 گولیاں ، 4 ہینڈ گرنیڈ ، خودکش جیکٹس ، بارود سے بھرے تین واٹر کولر بھی برآمد کر لئے ۔

سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ تمام افراد کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوہ سے تھا اور ان کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے مظفر گڑھ لے جایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس مظفر گڑھ سے نشاندہی کے بعد اسلحہ برآمد کرکے واپس آ رہی تھی، جب 12 سے 15 مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر آئے اور ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کو موٹر سائیکلوں پر ساتھ لے جانے کی کوشش میں کامیاب بھی ہو گئے۔مبینہ مقابلے کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے فرار ہونے کے بعد کاوٴنٹر ٹیررزم پولیس کو کے مقامی ایس ایچ کو مطلع کیا گیا جو کہ اس وقت اسی علاقے میں گشت پر تھے۔

سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق ایس ایچ او نے مفرور ہونے والے ملزمان کا تعاقب کیا اور اسی دوران مقابلہ ہوا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جن کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ہلاکتوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ14 عسکریت پسند مقابلے میں مارے گئے جن میں ملک اسحاق، ان کا نائب غلام رسول شاہ اور دیگر حملہ آور بھی شامل تھے۔حملہ آوروں سے بھی بڑے پیمانے پر ہتھیار برآمد ہوئے ہیں جبکہ اس حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

واقعے کے بعد پولیس نے مارے جانے والے تمام دہشت گردوں کی لاشوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال مظفر گڑھ منتقل کر دیا ۔ جہاں ان کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم جاری ہے ذرائع کے مطابق ملک اسحاق کے لواحقین کو پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاع دے دی گئی ہے جس کے بعد رحیم یار خان ایئرپورٹ روڈ پر واقع ان کے گھر کے باہر سیکیورٹی کو بھی سخت کر دیا گیا ہے ۔ دریں اثناء پولیس کارروائی کے بعد مظفر گڑھ اور اس کے تمام ملحقہ علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر کے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے ۔

ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد اعلی سیاسی شخصیات کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو چھ روز قبل 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا ملک اسحاق پر پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں 70 سے زائد مقدمات درج تھے اور ان تمام الزامات میں عدالتوں سے بری ہو چکے تھے ملک اسحاق گزشتہ 23 سالوں سے پولیس کی حراست میں مختلف جیلوں میں قید رہا ۔

23 سالوں کے دوران صرف چھ ماہ ان کو رہائی ملی ۔خیال رہے کہ لشکر جھنگوی کو پاکستان کے فرقہ وارانہ طور کو سب سے متشدد تنظیموں میں شمار کیا جاتا تھا جس پر 90 کے عشرے میں دیگر فرقوں کے افراد قتل کرنے کے الزامات ہیں۔لشکر جھنگوی کا تعلق عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بھی تھا۔جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں 10 سال قبل لشکر جھنگوی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ملک اسحاق کو مبینہ طور پر سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ مانا جاتا ہے۔2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے میں 9 کھلاڑی زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس میں 8 پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان 2011 کرکٹ ورلڈ کپ سے محروم ہو گیا تھا۔