شریف خاندان نے قرضے ہڑپ کیے نہ کھائے ،بینکوں کی ایک ایک پائی ادا کی ہے‘شہبازشریف

دسمبر 2014ء میں اتفاق فاؤنڈری کے ذمے تمام قرضے،مارک اپ،کاسٹ آف فنڈ کی مد میں 5ارب22کروڑ80لاکھ روپے ادا کرچکے ہیں اتفاق فاؤنڈری کے حوالے سے پاکستان کی بینکنگ کی تاریخ میں اتنی بڑی شفاف سیٹلمنٹ کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں اتفاق گروپ کے قرضوں کے حوالے سے ریفرنس کے بارے خبروں پر بے حد افسوس ہوا ہے مشرف دور میں اکتوبر2002ء میں ایک سرکاری مراسلے کے ذریعے اربوں کھربوں روپے کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کیے گئے سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرانے والوں میں پاکستان کے’’ امیر اورترین‘‘ لوگ شامل تھے ،جنہوں نے غریب قوم کی کمائی لوٹی اﷲ تعالیٰ کا شکرہے کہ ہم بینکوں کی ایک ایک پائی ادا کرکے آج سروخرہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب کا پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 8 جولائی 2015 21:00

شریف خاندان نے قرضے ہڑپ کیے نہ کھائے ،بینکوں کی ایک ایک پائی ادا کی ..

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 جولائی۔2015) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ شریف خاندان دسمبر 2014ء میں اتفاق فاؤنڈری کے ذمے تمام قرضے،مارک اپ،کاسٹ آف فنڈ اوردیگر چارجز کی مد میں 5ارب22کروڑ80لاکھ روپے ادا کرچکاہے اوراس ضمن میں بینکوں کے کنسورشیم نے کلیرنس سر ٹیفکیٹ بھی جاری کردیا ہے ،پاکستان کی بینکنگ کی تاریخ میں اتنی بڑی سیٹلمنٹ کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ جہاں پر اصل زر کے ساتھ17سال کا مارک اپ،کاسٹ آف فنڈ اوردیگر چارجز بھی ادا کیے جائیں ۔

شریف خاندان نے قرضے ہڑپ کیے نہ کھائے ہیں بلکہ بینکوں کی ایک ایک پائی ادا کی ہے،جس پر ہمیں بجاطورپر فخر ہے ،نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں اتفاق گروپ کے قرضوں کے بارے میں بھجوائے گئے ریفرنس کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر بے حد افسوس ہوا ہے،میں اس حوالے سے تکرار کے ساتھ کئی بار قوم کو حقائق سے آگاہ کرچکا ہوں،دوسری جانب مشرف کے دور میں اکتوبر2002ء میں ایک سرکاری مراسلے کے ذریعے غریب قوم کے اربوں کھربوں روپے کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کیے گئے جو ایک سنگین جرم ہے ،ایس آر او 29 کے تحت مشرف نے اپنے چہیتوں کے قرضے معاف کرائے جنہیں الیکشن لڑانا تھا ،سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرانے والوں میں پاکستان کے’’ امیر اورترین‘‘ لوگ شامل تھے ،جنہوں نے غریب قوم کی محنت کی کمائی کو لوٹ کرملک و قوم پر ظلم کیا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے ان خیالات کا اظہار یہاں اتفاق گروپ کے قرضوں کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ 2جنوری 1972ء کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فاؤنڈریز کو بغیر کوئی معاوضہ دیئے نیشنلائز کیالیکن ہمارے بزرگوں نے18ماہ کے اندر محنت کے ذریعے اسی شہر میں چھ مزید فیکٹریاں لگائیں ،16جولائی1979ء کو تباہ حال اتفاق فاؤنڈریز دوبارہ ہمارے خاندان کے حوالے کی گئی تو دن رات محنت کر کے اسے دوبارہ چلایا۔

بے نظیر بھٹو کے دورحکومت نے اتفاق فاؤنڈریز کے خلاف دوبارہ انتقامی کارروائی شروع کی گئی اوراسے بند کردیا گیا ۔بدنام زمانہ جوناتھن جہاز ایک سال تک سامان لیے کراچی پورٹ پرکھڑا رہا ۔ 28مئی 1998ء کو وزیراعظم محمد نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو نیوکلیر طاقت بنایا تو انہوں نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ اتفاق فاؤنڈریز کو انتقامی کارروائیوں کے ذریعے تباہ و برباد کیا گیا ہے تاہم شریف خاندان اپنے ذمے ایک ایک پائی قرض ادا کرے گا۔

1999ء کے اوائل یا 1998ء کے آخر میں اتفاق فاؤنڈریز کے تمام اثاثے بینکوں کے حوالے کردیئے گئے۔مشرف نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اتفاق فاؤنڈری کاریفرنس بنوایا جو کورٹ میں پڑا رہا ،اگر اس میں کچھ حقیقت ہوتی تو فیصلہ ہوتا،لیکن مشرف نے ہمارے خلاف بدنام زمانہ ہائی جیکنگ کا کیس بنایا اورہمیں زبردستی جلاوطن کردیا گیا۔آج میں یہ بات ایک قابل فخر پاکستانی کی طرح کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے کیا گیا وعدہ پورا کیا ۔

اتفاق فاؤنڈریز کے ذمے جتنے قرض تھے سب ادا کیے اور ایک پائی کا قرض بھی معاف نہیں کرایااور یہ مجموعی رقم 5ارب22کروڑاور80لاکھ روپے بنتی ہے اور یہ تمام امور شفاف طریقے سے سرانجا م پائے،جو ہمارے خاندان کیلئے باعث فخر ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں اتنی بڑی سیٹلمنٹ کی شفاف انداز میں تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔ہم نے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ایک ایک پائی ادا کی جس کا بینکوں نے ہمیں سرٹیفکیٹ بھی دیا۔

ان حقائق کے ہوتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئی ہے وہ بے بنیاد ہیں۔میری میڈیا سے گزار ش ہے کہ وہ حقائق عوام کے سامنے لائیں۔جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہ ایک بے بنیاد ریفرنس تھا جسے لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں خارج کردیا تھا ۔آج ہمارا سر اﷲ تعالیٰ کے حضور تشکر کے طورپر جھکا ہواہے کہ ہم عاجزی کے ساتھ یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ہم نے اپنی پوری سیاسی اور کاروباری زندگی میں کبھی سرکاری یا غیر سرکاری بینک سے ایک پائی کا قرضہ معاف نہیں کرایا۔

کیا یہ دعوی وہ دوسرے سیاستدان بھی کرسکتے ہیں جن کی زبانیں مسلم لیگ(ن) اوراس کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے نہیں تھکتی۔پاکستان کی تاریخ بدقسمتی سے قرضے معاف کرانے اوران کی ادائیگی میں رعایتیں لینے والوں کے ناموں بے بھری پڑی ہے ۔اﷲ تعالیٰ کا لاکھ شکرہے کہ شریف خاندان کا نام ان میں شامل نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ جب بینکوں کے ساتھ قرضوں کی سیٹلمنٹ کی جاتی ہے تو مقروض پارٹی کی طرف سے رعایتوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے اوریہ درخواست کی جاتی ہے کہ انہیں مارک اپ معاف کردیا جائے یا پھر کاسٹ آف فنڈ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔

ایسی درخواست کرنا ہمارا بھی حق ہوسکتا تھا لیکن ہم نے اپنا یہ حق استعمال تو کیا کرنا بلکہ اس کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔شریف خاندان نے بینکوں سے ایک روپے کا قرضہ بھی معاف نہیں کرایااورنہ ہی اس میں رعایت حاصل کی اوراس کا سر ٹیفکیٹ دے چکے ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ کے23دسمبر2014ء کو دیئے گئے فیصلے میں بھی کہاگیا ہے کہ کورٹ کی تشکیل شدہ کمیٹی نے تصدیق کردی ہے کہ اتفاق گروپ کی طرف سے تمام بینکوں کے واجبات ادا کردیئے گئے ہیں ۔

حدیبیہ پیپرمل کے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ کا ایک ڈویژن بینج تقریباً ایک سال پہلے غیر قانونی قرار دے کر خارج کرچکا ہے ۔ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں واضح طورپر کہا ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا اوربغیر کسی قسم کے شواہد کے سیاسی مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ خدا کا شکرہے کہ ہم تمام قرضے واپس کر کے سرخروہوئے ہیں ۔

پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو محلات،گاڑیاں اوربینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اربوں کھربوں روپے کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے۔جن لوگوں نے سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرائے ہیں ان سے یہ قوم کے پیسے واپس نکلوانے چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں پنجاب کے حکمرانوں نے چنیوٹ میں پاکستان اورپنجاب کے خزانوں پر ڈاکہ زنی کی،خام لوہے کے ذخائر کی تلاش کا کام ایک فراڈ کمپنی کو دیا گیا،ہائی کورٹ نے نیب کو حکم دیا کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے تونیب نے لکھ دیا کہ یہ کام شروع نہیں ہواتھا اس لئے کارروائی نہیں کی جاسکتی، جو قوم کے ساتھ سنگین مذاق تھا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو اس غریب قوم کے خزانے کا نوٹس لینا چاہیے تھا جو لٹ چکا تھا لیکن ہم نے اس معاہدے کو ختم کرایا۔احتساب کمیشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر منصفانہ اور بے رحمانہ احتساب نہیں ہوگاتوملک کی گاڑی اس طرح ایک پہیہ پر چلتی رہے گی۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خونی انقلاب کا راستہ روکنے کیلئے نرم انقلاب ضروری ہے اگر نرم انقلاب نہ آیا تو خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔

رائیونڈ روڈ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ پنجاب میں ہزاروں کلو میٹر سڑکیں بنی ہیں جن میں سے کسی نہ کسی سڑک پرکسی ،وزیر،سیاستدان ،جرنیل،جج یا کسی اعلی سرکاری حاکم کا گھر ہوتا ہے ۔مشرف دور میں اس سڑک کی انکوائری کروائی گئی لیکن کسی کو ہمت نہ پڑی کے ریفرنس کورٹ میں بھجواسکیں کیونکہ یہ سڑک فارم کے اندر نہیں جاتی بلکہ سڑک کے دونوں اطراف آبادیاں ہیں ،فلاحی ادارے ہیں،میڈیکل کالج،لاء کالج، ٹیکنیکل کالج،ہسپتال اورسکول بھی اسی سڑک پر ہیں ،جن میں ہزاروں طلبا ؤ طالبات زیر تعلیم ہیں ۔