افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے درمیان باہمی مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہوگئے ، (کل ) بھی جاری رہینگے

سرکاری عہدیدارنے اسلام آباد میں طالبان اورافغان حکام کے مذاکرات کی تصدیق کردی مذاکرات کیلئے آنیوالے دونوں وفود انتہائی بااختیار ہیں،افغان حکومت کے وفد میں صدراشرف غنی ،ڈاکٹرعبداللہ اورامن کونسل کے نمائندے شامل ہیں ،طالبان کاوفد بھی اپنی قیادت کی منظوری سے مذاکرات کیلئے آیا،دونوں وفود کے ارکان کی تعداد9 ہے،پیرکوخصوصی طیارے میں اسلام آباد پہنچے تھے

منگل 7 جولائی 2015 22:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے درمیان باہمی مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہوگئے جو (کل ) بدھ کوبھی جاری رہینگے۔ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے اسلام آباد میں طالبان اورافغان حکام کے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے این این آئی کو بتایا کہ مذاکرات کیلئے آنیوالے دونوں وفود انتہائی بااختیار ہیں۔

سرکاری عہدیدا ر نے بتایا کہ افغان حکومت کاوفد اس لحاظ سے بھی کافی بااختیار ہے کیونکہ اس میں صدر اشرف غنی کے نمائندے حاجی دین محمداورڈاکٹرعبداللہ کے نمائندے ناطقی بھی شامل ہیں جبکہ وفد میں امن کونسل کے اراکین بھی ہیں۔سرکاری عہدیدار کے مطابق طالبان کاوفد بھی ایک بااختیار وفد ہے جو طالبان قیادت کی منظوری سے مذاکرات کیلئے آیا ہے او ر یہ تاثر درست نہیں کہ طالبان کی جانب سے کچھ لوگ انفرادی طورپر مذاکرات کیلئے آئے ہیں یاپاکستان میں اپنی پسند کے لوگ شامل کئے ہیں۔

(جاری ہے)

طالبان وفد کے ارکان کے ناموں سے متعلق سرکاری عہدیدار کی طرف سے زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں تاہم انہوں نے بتایا کہ وفد میں عباس درانی نام کے رکن شامل ہیں۔سرکاری عہدیدار کے مطابق طالبان اورافغان حکام کے مذاکرات کے حوالے سے دوست ممالک اورافغان معاملے کے سٹیک ہولڈربھی باخبر ہیں۔این این آئی کے استفسار پرسرکاری عہدیدار کی طرف سے بتایا گیا کہ دونوں وفود کے ارکان کی مجموعی تعداد 9 ہے جوپیرکوخصوصی طیارے میں افغانستان سے اسلام آباد پہنچے تھے جن کے درمیان منگل کو مذاکرات ہوئے جو بد ھ کو بھی جاری رہینگے۔

واضح رہے کہ افغاان صدارتی محل کے نائب ترجمان ظفر ہاشمی نے افغان حکومت اورطالبان کے وفود کی مذاکرات کیلئے اسلام آبادروانگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاتھا کہ افغان حکوممت کے وفد نے چار جبکہ طالبان کے وفد میں تین ارکان شامل ہیں۔ ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق افغان طالبان ذرائع نے کہا کہ ان کی جانب سے حاجی دین محمد، ملا خلیل، فرہاد اللہ اور ملا عباس افغانستان اور قطر سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ان مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونیوالے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا راوٴنڈ قرار دیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان فوج کے سربراہ نے اس سال فروری میں کابل کے دورے میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان رابطوں کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن کافی تاخیر کے بعد چین میں گذشتہ دنوں یہ پہلا رابطہ ہوا تھا۔وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے گذشتہ ہفتے میڈیا بریفنگ میں بھی کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل میں مدد کر رہا ہے جو کہ افغانوں کی قیادت اور افغانوں کا اپنا عمل ہے۔

ملا جلیل طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، جبکہ حاجی دین محمد ننگرہار تعلق رکھتے ہیں، اور وہ ارومچی میں ہونے والے رابطے میں بھی شامل تھے۔یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب گذشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان میں سرحدی کشیدگی اور قندھار میں ایک اہلکار کی حراست کے بعد تلخی میں اضافہ ہوا تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیر طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔

تاہم افغان طالبان نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں یہ کہتے ہوئے اپنی تحریک کو ان رابطوں سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی کہ اگر فریقین میں کوئی رابطے ہو رہے ہیں تو یہ ان کی ذاتی حیثیت میں ہوسکتے ہیں لیکن اسلامی تحریک کے نہیں۔تجزیہ نگاروں کے بقول اس بیان کا مقصد طالبان کے اندر ان رابطوں سے کسی مخالفت کو روکنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔