افغان حکومت اور طالبان کے وفودباہمی مذاکرات کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے ، سفارتی اور طالبان ذرائع

حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر مذاکرات کی تصدیق یا تردید نہیں کی اس بارے میں معلوم کر کے آگاہ کرنے کی کوشش کرینگے، ترجمان وزرات خارجہ قاضی خلیل اﷲ ایک یا دو دن انتظار کیا جائے ۔ سینئر فوجی اہلکار ،مذاکرات (کل) بدھ سے شروع ہونے کی توقع ہے،ذرائع مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونیوالے مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ قرار دیا جا رہا ہے

منگل 7 جولائی 2015 21:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء) پاکستان میں سفارتی اور طالبان ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے وفودباہمی مذاکرات کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں تاہم حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر ان مذاکرات کی تصدیق یا تردید نہیں کی ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اﷲ نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں معلوم کر کے آگاہ کرنے کی کوشش کرینگے۔

جبکہ سینئر فوجی اہلکار نے اس حوالے سے ایک یا دو دن انتظار کرنے کا کہا ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق افغان طالبان ذرائع نے کہا کہ ان کی جانب سے حاجی دین محمد، ملا خلیل، فرہاد اﷲ اور ملا عباس افغانستان اور قطر سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ان مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونیوالے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا راؤنڈ قرار دیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق مذاکرات (کل) بدھ سے شروع ہونے کی توقع ہے ۔اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان فوج کے سربراہ نے اس سال فروری میں کابل کے دورے میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان رابطوں کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن کافی تاخیر کے بعد چین میں گذشتہ دنوں یہ پہلا رابطہ ہوا تھا۔وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اﷲ نے گذشتہ ہفتے میڈیا بریفنگ میں بھی کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل میں مدد کر رہا ہے جو کہ افغانوں کی قیادت اور افغانوں کا اپنا عمل ہے۔

ملا جلیل طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، جبکہ حاجی دین محمد ننگرہار تعلق رکھتے ہیں، اور وہ ارومچی میں ہونے والے رابطے میں بھی شامل تھے۔یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب گذشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان میں سرحدی کشیدگی اور قندھار میں ایک اہلکار کی حراست کے بعد تلخی میں اضافہ ہوا تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیر طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔

تاہم افغان طالبان نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں یہ کہتے ہوئے اپنی تحریک کو ان رابطوں سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی کہ اگر فریقین میں کوئی رابطے ہو رہے ہیں تو یہ ان کی ذاتی حیثیت میں ہوسکتے ہیں لیکن اسلامی تحریک کے نہیں۔تجزیہ نگاروں کے بقول اس بیان کا مقصد طالبان کے اندر ان رابطوں سے کسی مخالفت کو روکنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔