قومی احتساب بیورو نے 150 میگا کرپشن کیسز کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروا دی

منگل 7 جولائی 2015 15:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء) قومی احتساب بیورو (نیب) نے 150 میگا کرپشن کیسز سے متعلق فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جس میں وزیراعظم نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ‘وزیرخزانہ اسحاق ڈار ‘ سابق صدر آصف علی زرداری ‘ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین ‘ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف‘ ہارون اختر خان ‘ آفتاب شیر پاؤ‘ جہانگیر صدیقی ‘ نواب اسلم رئیسانی ‘ ایم سی بی کے مالک میاں محمد منشاء شامل ہیں‘ جبکہ سندھ کے چیف سیکرٹری محمد صدیق میمن کیخلاف سرکاری زمین جعلی ناموں پر الاٹ کرنے کے کیس کی تحقیقات جاری ہے جس سے قومی خزانے کو 400 ملین کا نقصان پہنچا ۔

منگل کو سپریم کورٹ میں نیب کی طرف سے 150 میگا کرپشن کیسز کی فہرست جمع کروائی گئی جس پر سپریم کورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور پیر تک دوبارہ مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔

(جاری ہے)

ایم سی بی نجکاری کیس سے متعلق نیب حکام نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کی تحقیقات کیلئے مزید وقت دیا جائے جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ ایم سی بی کی تحقیقات 2002 ء سے کی گئی تھیں۔

اب مزید مہلت کیوں مانگی جا رہی ہے کیا پہلے والی انکوائری غلط ہے ۔ جس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب کی رپورٹس نامکمل ہیں ۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 150 میں سے 50 کیسز مالیاتی بے ضابطگیوں، 50کیسز اراضی اسکینڈل اور 50 اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہیں۔

مالی بے ضابطگیوں میں 22کیسز میں انکوائری (تحقیقات) ، 13 انویسٹی گیشن (تفتیش) ،15کیسز میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔اراضی اسکینڈل میں 29 انکوائری کے مرحلے میں، 13 انویسٹی گیشن، 8 میں ریفرنس دائر کیے گئے۔اختیارات کے ناجائز استعمال میں 20 انکوائری، 15 انویسٹی گیشن، 15 میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔نیب کی فہرست میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے نام بھی شامل ہیں۔

نواز شریف اور شہباز شریف پر رائیونڈ سے شریف فیملی ہاؤس تک 126 ملین کی سڑک تعمیر کرنے کے الزام میں انکوائری کی جا رہی ہے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف 1999ء میں ایف آئی اے میں خلاف قواعد بھرتیوں کی تحقیقات جاری ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ذرائع سے زائد اثاثہ جات بنانے پر انکوائری جاری ہے۔ سابق صدر زرداری کے خلاف ذرائع سے زائد اثاثہ جات بنانے پر کیس زیر سماعت ہے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری پر 22 ارب اور ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کے کرپشن کے الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت کیخلاف نامعلوم ذرائع سے زائد آمدن پر انکوائری جاری ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کے خلاف 2.428 ارب روپے کی انکوائری کی جارہی ہے۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق چئیرمین ای او بی آئی (اولد ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن) ظفر گوندل کے خلاف 567 ملین روپے کی کرپشن کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف آر پی پی کیس میں انکوائری جاری ہے۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے خلاف ذرائع سے زائد آمدن کے 100 ملین روپے کی انکوائری کی جا رہی ہے۔سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاوٴ کے خلاف بھی آمدن سے زائد اثاثہ جات پر انکوائری جاری ہے۔سابق سفیر حسین حقانی کیخلاف 3 نجی کمپنیوں کو ایف ایم لائسنس جاری کرنے پر انکوائری جاری ہے۔

حسین حقانی نے یہ لائسنس بطور سیکرٹری اطلاعات جاری کئے تھے۔ حسین حقانی کے خلاف خرد برد کے الزامات میں رقم کا تخمینہ بھی لگایا جا رہا ہے۔این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کے خلاف 2 ارب روپے کرپشن کی انکوائری جاری ہے۔سابق چیئرمین این آئی سی ایل عابد جاوید اور دیگر کے خلاف 100 ملین روپے کرپشن کی انکوائری ہو رہی ہے۔سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کیخلاف 80ارب روپے کرپشن پر مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

نیب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنانشل اسکیم میں تاندیانوالہ شوگر ملز کیخلاف 700ملین روپے خرد برد کی انکوائری چل رہی ہے۔ یہ شوگر مل وزیر اعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر خان کی ہے۔ شون گروپ کیخلاف قرض نادہندگی کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔یونس حبیب کے خلاف 3ارب روپے کی دانستہ قرض نادہندگی کی تحقیقات بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔رپورٹ میں جہانگیر صدیقی اور دیگر کے خلاف 2 بلین قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے کیس کی سماعت جاری ہیں۔

بلوچستان کے سابق وزرا عبدالغفور لہڑی‘ اسفند یار کاکڑ‘ٹیکسٹائل مل کے مالک مرشد حنیف کیخلاف 524 ملین بنک قرضہ واپس نہ کرنے پر انکوائری جاری ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے خصوصی معاون سید معصوم شاہ کیخلاف 300 ملین قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور اپنے ذرائع آمدن سے زائد وسائل رکھنے پر انکوائری جاری ہے۔ نیشنل بنک گلگت کے ریجنل چیف محمد عارف کیخلاف قومی خزانے کو 330 ملین کا نقصان پہنچانے پر تحقیقات جاری ہیں۔

پیسکو کے حکام کیخلاف قومی خزانے کو 1.884 ملین کی غیر قانونی خریداری کے کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔ سندھ کے سیکرٹری بلدیات علی احمد لنڈ کیخلاف قومی خزانے کو 255ملین کا نقصان پہنچا نے کی تحقیقات جاری ہیں۔ سابق سیکرٹری ہاؤسنگ ذکی اللہ قومی خزانے کو 394 ملین کا نقصان پہنچانے کا کیس زیر تفتیش ہے اور وی آر کے تحت 300 ملین روپے وصول بھی کئے جا چکے ہیں۔

اے این پی کے سابق ایم این اے حاجی وسیم الرحمن کیخلاف کیس عدالت میں زیر سماعت ہے‘افضل خالق المعروف ڈ بل شاہ کیخلاف لوگوں سے رقوم لے کر ہڑپ کرنے کے کیس میں7.753 بلین روپے ہڑپ کئے ہیں اور یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سلک بنک فراڈ کیس میں شیخ محمد افضل کیخلاف435 ملین کا فراڈ کرنے پر عدالت میں کیس زیر سماعت ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ سندھ سے قومی خزانے کو 224 ملین کا نقصان پہنچانے پر سابق سیکرٹری لیبر سندھ نصیر حیات کیخلاف تحقیقات جاری ہیں۔

اوجی ڈی سی ایل ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں 600 ملین روپے کا فراڈ کرنے پر انتظامیہ کیخلاف تحقیقات جاری ہیں۔ پاکستان پوسٹل سروسز کے سابق سیکرٹری راجہ اکرام الحق اور سابق ایم ڈی اعجاز علی خان کیخلاف100 ملین کا فراڈ کرنے کے کیس کی بھی تحقیقات جاری ہیں۔ ڈی ایچ اے ویلی کی انتظامیہ کیخلاف لیفٹیننٹ کرنل (ر) طارق کمال کی درخواست پر زمینوں کی خرید و فروخت میں وسیع پیمانے پر گڑبڑ کی تحقیقات جاری ہیں۔

ایک لاکھ 31 ہزار کنال اراضی کے کیس کی نیب تحقیقات کر رہا ہے۔ سی ڈی اے کے افسران کیخلاف E-11 میں ترقیاتی کاموں کیلئے 1.2 بلین کے ٹھیکوں میں خرد برد کی تحقیقات جاری ہیں۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کیخلاف بھی انکوائری جاری ہے جبکہ اس کے علاوہ 5 مزید ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھی انکوائری کی جا رہی ہے ۔ سندھ کے چیف سیکرٹری محمد صدیق میمن کیخلاف سرکاری زمین جعلی ناموں پر الاٹ کرنے کے کیس کی تحقیقات جاری ہے جس سے قومی خزانے کو 400 ملین کا نقصان پہنچا ۔

متروکہ وقف املاک کے سابق چیئرمین آصف ہاشمی کیخلاف قومی خزانے کو 300 ملین کا نقصان پہنچانے پر تحقیقات جاری ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان ‘ افتخار احمد خان اور خدا بخش کیخلاف نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کی زمینوں کی خریداری میں 6بلین روپے کے فراڈ کیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ریفرنس عدالت میں بھجوا دیا گیا جس کی سماعت 10 جولائی کو ہو گی۔

متعلقہ عنوان :