اسلام آباد ، بلدیا تی الیکشن ضرور ہونگے پچیس کو نہ سہی اگست میں ہو جائینگے،سپریم کورٹ

منگل 7 جولائی 2015 13:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے بارے وفاقی حکومت سے دو ٹوک ، واضح اور تحریری جواب چوبیس گھنٹوں میں طلب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر جواب نہ دیا گیا تو عدالت اپنا واضح حکم جاری کرے گی ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اسلام آباد کے شہریوں کیلئے قانون بنانے کی پابند ہے ۔

بلدیاتی انتخابات تو ہونگے اور ضرور ہونگے اگر پچیس جولائی کو نہ ہوسکے تو پھر ستائیس انتیس جولائی یا پھر اگست میں ہو جائینگے حکومتی یقین دہانی پر انتخابات کرانے کا حکم دے کر بہت بڑی غلطی کی اگر حکومت قانون سازی نہیں کرسکتی تو اسلام آباد کے باسیوں کو بتلا دے کہ بلدیاتی انتخابات ان کا حق نہیں ہے آرٹیکل 140A میں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی وضاحت موجود ہے اگر کوئی قانونی خلا ہے تو وہ پر کیا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کسی کو بھی نئے اور پرانے قانون کا علم تک نہیں ہے انہوں نے سوال کیا کہ نیا قانون نہ بنے تک پرانا قانون ختم ہوجاتا ہے جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا ہے کہ 1979ء کے قانون میں صرف شہری علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے تک محدود ہے جبکہ 2002ء کے تحت شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں انتخابات ہوسکتے ہیں سینٹ اجلاس جاری ہے عدالت وقت دے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا انہوں نے یہ رپورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو پیش کی جس میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو انتخابات تو ہر حال میں کرانے ہیں چاہے وہ نئے قانون کے تحت کرائے یا پرانے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے تمام تر اقدامات بھی کئے جارہے ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے حکومتی یقین دہانی پر الیکشن کرانے کا حکم دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے اگر حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کراسکتی تو کم از کم اسلام آباد کے امیدواروں کو ہی بتا دے کہ وہ بینرز ، پلے کارڈز اتارلیں اور مزید اخراجات نہ کریں اگر حکومت انتخابات کرانا چاہتی ہے تو اس نے اب تک اس کیلئے کیا ہی کیا ہے اس دوران جب جسٹس شیخ عظمت سعید نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ 2002ء اور 1979ء کا کیا قانون ہے تو اس پر وہ جواب نہ دے سکے تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کیا

اور کہا کہ اتنا حساس معاملہ ہے اور اناڑیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے لگتاہے حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اس دوران عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو پندرہ منٹ کا وقت دیا کہ وہ دو ہزار دو کے بلدیاتی انتخابات کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کریں تو پندرہ منٹ بعد ڈپٹی اٹارنی نے معذوری کا اظہارکرتے ہوئے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے دو ہزار دو کا نوٹیفکیشن نہیں مل سکا انہوں نے 1979ء اور 2002ء کے قوانین بارے مختصراً عدالت کو معلومات بھی پیش کیں جس پر عدالت نے کہا کہ ہم مزید وقت نہیں دے سکتے آپ چوبیس گھنٹوں میں حکومت سے بات کریں اور ان سے حتمی طور پر پوچھیں کہ وہ کس قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتے ہیں اور یہ سب کچھ تحریری طور پر پیش کیاجائے جواب نہ آیا تو عدالت اپنا حتمی حکم جاری کرے گی بعد ازاں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مہلت دیتے ہوئے سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کردی ۔

جبکہ ذرائع نے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء کو بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے تک اسلام آباد کے بلدیاتی امیدواروں کے انتخابات میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہونا تھی وہ روک دی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل شروع کیاجائے گا