سابقہ ڈی ایم جی افسروں کے متنازع ترقی کیس کا فیصلہ 8جولائی کو متوقع ،سنٹرل سلیکشن بورڈ سے نظر انداز 50 سے زائد سینئر افسروں کے وکلا ء اپنے دلائل (کل ) مکمل کرلیں گے

افسروں کی ترقی کا فیصلہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس سے قبل کہیں اور ہو ا ، بورڈ ارکان نے افسروں کو نمبر دینے کا اختیار میرٹ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر استعمال کیا، وکلا ء کا موقف

پیر 6 جولائی 2015 20:32

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جولائی۔2015ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی ) افسروں کے متنازع پروموشن کیس کا فیصلہ 8جولائی کو متوقع ہے،سنٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے نظر انداز کئے گئے پچاس سے زائد سینئر افسروں کے وکلا ء (کل ) منگل کو عدالت میں اپنے دلائل مکمل کرینگے ،وکلا ء نے موقف اختیار کیا ہے کہ ترقی پانے والے اکثر افسروں کا تعلق 15ویں کامن سے ہے ،افسروں کی ترقی کا فیصلہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس سے قبل کہیں اور ہو ا لیکن بورڈ ارکان نے بھی افسروں کو نمبر دینے کا اختیار میرٹ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر استعمال کیا ، تفصیلات کے مطابق پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی ) کے افسروں کے حالیہ متنازع پروموشن کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کر رہے ہیں اور اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے اور آئندہ ایک رو ز میں 50سے زائد درخواست گزاروں کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کر لینگے ، دلائل دیتے ہوئے عبدالرحیم بھٹی، شبیر احمد بھٹہ، رانا آفتاب عالم ، فیاض احمد جندران ، بیرسٹر مسرور شاہ، عبدالرحمن صدیقی اور حافظ ایس ۔

(جاری ہے)

اے رحمن نے استدعا کی کہ مئی 2015ء کے سنٹریل سلیکشن بورڈ میں میرٹ کی بجائے ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر افسروں کو ترقی دی گئی ، دلائل کے دوران نہایت حیران کن تفصیلات سامنے آئیں جن کے مطابق ڈی ایم جی کے پروموشن پانے والے گریڈ 20سے21افسروں کی اکثیریتی تعداد 15نمبرکامن سے ہے جو کہ ایک طاقت ور ترین افسر کے بیچ کے ہیں اور وہ افسرخود بھی اِس میں پروموٹ ہوئے ہیں ،وکلاء کے مطابق پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس (سابقہ ڈی ایم جی)کے 9نمبر کامن سے لیکر 14نمبر کامن تک ٹوٹل 56آفسروں میں سے صرف 22کو پروموٹ کیا گیا۔

جبکہ 15نمبر کامن سے 19آفسروں کے پروموشن کی سفارش کی گئی ۔ اِس کے بعد 16نمبر کامن سے 11افسرپروموٹ ہوئے۔ 17نمبر کامن کے بھی 10آفسر پروموٹ ہوئے۔ اِس طرح ٹوٹل 62آفسروں کو پروموٹ کرنے کی سفارشات کی گئیں۔ باقی 11آسامیاں جو بچ گئیں جو کہ 18نمبر کامن کو ستمبر میں پروموٹ کرنے کیلئے رکھ دیں جس میں مشہور زمانہ ماڈل ٹاؤن لاہور کیس کے اہم کردار ڈاکٹر توقیر شاہ ہیں۔

وکلاء نے مذید دلائل دیئے کہ اِن پروموشن کا فیصلہ بورڈ سے پہلے ہی کہیں اور ہوچکا تھا ، عدالت میں حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے اپنے مؤقف کی سپورٹ میں پیش کئے اور بتایا کہ مئی2015ء کے بورڈ اجلاس نے ماضی کی تمام بے ضابطگیوں کے ریکارڈ توڑ دیے اور چیئرمین سنٹرل سلیکشن بورڈ علیل ہیں جو تمام پروموشن کے دوران بورڈ میں بیٹھ بھی نہیں سکے اور بورڈ کے ارکان کی تعیناتی آخری دن کی گئی تاکہ من پسند افسروں کو ترقی دلائی جا سکے ، وکلاء کے دلائل میں یہ امر سامنے آیا کہ افسر کو پروموٹ ہونے کیلئے 100میں سے کم از کم 75 نمبرچاہیے ہوتے ہیں اور اِس میں افسر کی کام کرنے کی صلاحیت اور ایمانداری کو مدے نظر رکھا جاتا ہے۔

85نمبر سالانہ کارکردگی روپوٹوں اور کورس/ٹرینگ پر ممبنی ہوتے ہیں۔ 15نمبر سنٹرل سلیکشن بورڈ کے ممبران اجتماعی عقل سے دیتے ہیں۔ اِس اجتماعی عقل کے پیمانے میں بھی قابلیت اور ایمانداری شامل ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بورڈ کے ممبروں نے15نمبر میرٹ کی بجائے اپنی پسند اور نا پسند پرا ستعمال کئے ، اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے ایک نئے آرڈر جس کی کوئی قانونی حہثیت نہیں ہے میں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر ایمانداری کے 5نمبروں میں سے کوئی افسر 3نہ حاصل کر سکے گا تو وہ ڈیفرہو جائے گا اور باقی کے 97نمبر کی کوئی حہثیت نہیں رہے گی۔

جو اس افسرنے 28سے 30سال کی سروس میں محنت اور ایمانداری سے بنائے تھے ۔ اِن 5نمبروں کیلئے انٹیلی جنس رپورٹس کا سہارا لیا گیااور اُس ناپسندافسر پر ایمانداری کا الزام لگا کر اسے ڈیفرکر دیا اور جو انٹیلی جنس رپورٹس کے شر سے بچ گیا تو اُس افسر کی مزید کام کرنے کی صلاحیت کو جانچنے کے بہانے رد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ چند افسروں کی سروس کا ریکارڈ سالانہ رپوٹوں اور کورس سمیت شاندار تھا اور کسی قسم کی کوئی قابلیت اور ایمانداری پر منفی رپورٹ نہ تھی اور اُن افسروں کے ذاتی 85میں سے 75نمبروں سے زیادہ تھے اور سروس میں ایمانداری اور قابلیت پر ایک داغ بھی نہ تھا ۔

متعلقہ عنوان :