بڑے ڈیم نہ بنائے گئے تو مستقبل میں پانی کے مسئلے پر صوبے اور وفاق دست وگریباں ہوں گے،ٹیوب ویلوں پر سبسڈی بتدریج ختم کردیں گے ، بلوچستان میں 18 ہزار غیر قانونی ٹیوب ویل کنکشن منقطع کرنے میں بے بس ہیں، نولانگ ڈیم پر آئندہ چند ہفتے میں کام شروع ہو جائے گا ، پاکستان پانی کی کمی کے حوالے سے خطرے کے نشان کے قریب پہنچ چکا ہے

وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی کاسینیٹ میں سینیٹر میر کبیر کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

پیر 6 جولائی 2015 20:31

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جولائی۔2015ء ) وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 18 ہزار غیر قانونی ٹیوب ویل کنکشن منقطع کرنے میں بے بس ہے ، ٹیوب ویلوں پر سبسڈی بتدریج ختم کردیں گے ، نولانگ ڈیم پر آئندہ چند ہفتے میں کام شروع ہو جائے گا ، اگر بڑے ڈیم نہ بنائے تو مستقبل میں پانی کے مسئلے پر صوبے اور وفاق آپس میں دست گریباں ہوں گے ، پاکستان پانی کی کمی کے حوالے سے خطرے کے نشان کے قریب پہنچ چکا ہے ۔

پیر کو یہاں سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی تحریک پر بحث سمیٹ رہے تھے ۔ قبل اس کے بلوچستان سے منتخب ہونے والے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے انپی تحریک پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بتدریج زیر زمین پانی کی سطح کافی نیچے چلی گئی ہے حالانکہ پاکستان میں سالانہ 10 ملین ایکڑ فٹ بارش ہوئی ہے اور وہ پانی سمندر میں چلا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بلا شبہ یہ صوبائی معاملہ ہے لیکن صوبائی حکومت کے بس سے باہر ہے ۔ بلوچستان میں چھوتے درمیانے اور بڑے ڈیم مکمل نہیں کیے گئے ، وفاقی حکومت اس معاملے پر میں بلوچستان کی مدد کرے تاکہ بلوچستان کو ریگستان بننے سے بچایا جاسکے ۔ پیپلزپارٹی کی سنیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ آبی وسائل کا تحفظ صوبوں ہی کی نہیں وفاق کی بھی ذمہ داری ہے ، یہاں پر بھارتی آبی دہشتگردی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتای اجاتا کہ پاکستان کے تین دریا کس نے بھارت کو بیچے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پانی کا مسئلہ کافی سنجیدہ ہے ، وفای کو اسے حل کرنا ہوگا ۔ بلوچستان کے سینٹر آغا شہباز نے کہا کہ بلوچستان اگر آج بھی 5.44 ملین ایکڑ فٹ پانی کم مل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان میں 2.7 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ نکال رہے ہیں جو خطرناک ہے اور وہاں ٹیوب ویل پر ٹیوب ویل لگائے جارہے ہیں ۔ قصور تو ہمارا اپنا ہے لہٰذا ہم پہلے اپنا قصور مانیں پھر کسی اور پر انگلی اٹھائیں ۔

بلوچستان نیشنل پارتی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدین نے کہا کہ پانی کے معاملے پر وفاق بلوچستان کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے ۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں دو کروڑ 80 لاکھ قابل کاشت زمین خالی پڑی ہے کیونکہ پانی نہیں ہے ، بلوچستان میں وفاقی حکومت کو ڈیموں کی تعمیر کا خصوصی منصوبہ شروع کرنا چاہیے ۔

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی بارشیں کم ہوتی ہیں ، حکومت کا سولر ٹیوب ویلوں کیلئے بلا سود قرضے فراہم کرنا بڑی زیادتی ہے ۔ پانی کا کافی ضیاع ہوگا ۔ وزیر مملکت پانی وبجلی عابد شیر علی نے کہا کہ بلوچستان کا پانی کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے ، وزیر مملکت بلوچستان کو پٹ فیڈر کینال ، بگھاڑی کینال سے پانی ملتا ہے ۔ بلوچستا نمیں 18 ہزار غیر قانونی ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں ، وہاں پر 60 سے 65 کلوواٹ کی ٹربائین لگی ہوئی ہیں جن سے بجلی اور پانی دونوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ نولانگ ڈیم کا ٹھیکہ دیدیا ہے جبکہ چند ہفتے میں اس پر کام شروع ہو جائے گا جس سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے غیر قانونی ٹیوب ویلوں کے کنکشن نہیں کاٹ سکتے ۔ پسنی میں دو روز قبل واپڈ کے تین اہلکار شہید ہوئے ہیں ، اس سے پہلے بلوچستان میں بجلی کی مین لائن کو نشانہ بنایاگیا جس سے پورے ملک میں بلیک آؤٹ ہوا تھا ۔

بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کیلئے سبسڈی تبدریج ختم کرنے اور ملک بھر میں پانی کے ضیاع روکنے کی مہم چلائی جانی چاہیے ، اگر ہم نے ڈیم نہ بنائے تو صوبے پانی کیلئے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہوں گے ۔ وزیر مملکت نے کہا کہ پانی کی کمی کے حوالے سے ریڈ لائن کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت بلوچستان کے لوگوں کو اپنے ہر قسم کے وسائل فراہم کرنے کیلئے تیار ہے اس حوالے سے سینیٹ کی کمیٹی قائم کی جائے جو حکومت سے بات چیت کرے