اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد غیر قانونی ہے ،مجوزہ قانونی مسودے پر انتخابات بارے پیشرفت مناسب نہیں،آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت قانون کی منظوری کے مراحل باقی ہے، پارلیمنٹ آئین اور قانون سازی کے پارلیمانی اختیارات پر قد غن لگانے کی اجازت نہیں دے گی

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رولنگ

پیر 6 جولائی 2015 18:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جولائی۔2015ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جواز بنا کر کئے گئے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رولنگ دی ہے کہ قانون کی غیر موجودگی میں محض مجوزہ قانون کے مسودے پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت مناسب نہیں، آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت قانون کی منظوری کے مراحل باقی ہے، پارلیمنٹ کسی شخص ، ادارے یا تنظیم کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ آئین سازی اور قانون سازی کے پارلیمانی اختیارات پر قد غن عائد کرے۔

پیر کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے یہ رولنگ ارکان کی جانب سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی کے بغیر الیکشن کمیشن کے اقدامات پر بحث کے بعد دی ۔

(جاری ہے)

رولنگ دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ اہم اور سنگین مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے متعدد اقدامات اٹھائے اور مسودہ قانون کی بنیاد پر معاملات آگے بڑھائے۔

کمیشن نے ان اقدامات کے حوالے سے 10 مارچ 2015ء کے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا ہے اور اس حوالے سے کمیشن کے خلاف سینیٹرسعید غنی اور کلثوم پروین نے تحاریک استحقاق بھی پیش کی ہیں۔ جاوید عباسی نے بھی ایک تحریک التواء جمع کرائی ہے، میں نے آئین اور قانون کی بالادستی یقین کا حلف اٹھایا ہے، حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو آگاہ نہیں کیا گیا کہ بل کی منظوری کے بہت سارے مراحل باقی ہیں، اسمبلی کی منظوری کے بعد بل 13 اپریل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا، جسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو سپرد کیا گیا، قائمہ کمیٹی 30 دنوں میں بل منظور کرنے یا مسترد کرنے کی پابند ہوتی ہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی بنائی، قائمہ کمیٹی نے دو دفعہ قائمہ کمیٹی کی مدت میں اضافے کی درخواستیں کیں،5 جولائی تک کی مدت بڑھائی گئی، اگر سینیٹ ترامیم کے ساتھ بل منظور کرے تو یہ دوبارہ اسمبلی میں جائے گا، اگر اسمبلی اسے ترمیم شدہ حالت میں منظور نہ کرے تو پھر مشترکہ اجلاس میں اس کی منظوری کی جا سکتی ہے، جب عدالت نے حکم دیا تو ای سی پی اور حکومت نے سپریم کورٹ کو بل کی منظوری کے حوالے سے مراحل سے آگاہ نہیں کیا، اس طرح کا حکم آئین میں طے کئے گئے اختیارات کی خلاف ورزی ہے۔