پشاور سانحہ میں زخمی بچوں کیلئے میڈیکل بورڈ کا قیام عمل میں نہ آسکا

پنجاب حکومت کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود میڈیکل بورڈ کی ابھی تک تشکیل نہیں ہو سکی ہے،والدین حکومت بچوں کو ہر طرح کی طبی سہولیات کے علاوہ دیگر تمام سہولیات بھی مہیا کر رہی ہے،، نجی ڈاکٹروں کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی ہیں ، صوبائی وزیر صحت

پیر 6 جولائی 2015 18:16

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جولائی۔2015ء) 16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے والے بچوں کے لیے لاہور میں دو ہفتے سے زائدگذرنے کے باوجود میڈیکل بورڈ کا قیام عمل میں نہیں آ سکا ہے۔اس حملے میں زخمی ہونے والے 20 سے زائد بچے اور اْن کے والدین 17 جون سے لاہور میں مقیم ہیں اِن میں سے سات بچے ایسے ہیں جو کہ بم دھماکے یا گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔

بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود میڈیکل بورڈ کی ابھی تک تشکیل نہیں ہو سکی ہے۔مشیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ حکومت بچوں کو ہر طرح کی طبی سہولیات کے علاوہ دیگر تمام سہولیات بھی مہیا کر رہی ہے۔مشیر صحت نے کہا کہ ڈاکٹروں کی اعلی ترین ٹیم بچوں کا معائنہ کر رہی ہے اور اِس مقصد کے لیے نجی ڈاکٹروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

خواجہ سلمان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ڈاکٹروں کے معائنے کی حتمی رپورٹ تیار ہو گی اْن کاجائزہ لیتے ہی ایک نہیں بلکہ زیادہ میڈیکل بورڈ بنائے جائیں گے۔مشیر صحت نے کہا کہ بچوں کو مختلف نوعیت کے زخم ہیں اس لیے اْن کے زخموں کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے بورڈ تشکیل دیے جائیں گے۔آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں 140 سے زائد بچے ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھیدوسری جانب بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اْن کی پریشانی میں اْس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب مختلف ہسپتالوں میں طبی معائنیکے بعد ایک ہی میڈیکل رپورٹ پر مختلف ڈاکٹروں کی جانب سے مختلف آرا سامنے آتی ہیں ایک ڈاکٹر کہتا ہے کہ سرجری ہو گی جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ سرجری نہیں ہو گی۔

میٹرک کے طالب علم معاذ عرفان کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے دوران چار گولیاں لگیں تھیں جن میں سے ایک اْن کے بائیں ہاتھ کی کہنی میں لگی۔ معاذ عرفان کی اب تک سات بار سرجری ہو چکی ہے لیکن اْب بھی وہ صحت یاب نہیں ہو سکا ہے۔معاذ عرفان کی والدہ ہما عرفان کا کہنا ہے کہ لاہور میں اِن کے بیٹے کا چیک اپ شیخ زید اور میو ہسپتال میں ہوا ہے اور دونوں ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی جانب سے ملنے والی آرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اْن کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کس کی بات کو قابل بھروسہ سمجھیں۔

ہما عرفان نے کہا کہ تمام والدین چاہتے ہیں کہ بچوں کے لیے جلد میڈیکل بورڈ بنایا جائے جو کہ اپنی سفارشات مرتب کر کے حتمی علاج شروع کر سکے۔زخمی ہونے والے ایک اور طالب علم عمیر خان کے والد دل جان کا کہنا ہے اْن کے بیٹے کو تین گولیاں لگیں تھیں اور اْن کے بیٹے کے دائیں ہاتھ کی اْنگلیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے لیے اْس کی چار بار سرجری ہو چکی ہے۔دل جان نے کہا کہ اْن کے بیٹے کا اب تک باقاعدہ علاج شروع نہیں ہو سکا ہے اور وہ صرف ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگا رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :