گوجرانوالہ ٹرین حادثے سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے میں مزید تین سے چار روز لگ سکتے ہیں‘ وفاقی وزیر ریلوے

انجن کے جائے حادثہ سے 945فٹ پہلے موڑ کاٹتے ہوئے پٹڑی سے اترنے کے شواہد مل چکے ،ڈرائیور نے ایس او پی کے مطابق ایمر جنسی بریک لگائی ٹریک کے نٹ بولٹ کھلے ہوئے اورفش پلیٹیں بھی ٹوٹی اور کھلی ہوئی پائی گئی ہیں ،ڈرائیور نے 26کلو میٹر پہلے ڈیڈ سٹاپ پر ٹرین روک کر رجسٹر پر بھی دستخط نہیں کئے اور ٹرین کی رفتار بھی مقررہ حد سے زیادہ تھی ،تمام محرکات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے خواجہ سعد رفیق کی ریلوے ہیڈ کوارٹر میں محکمے کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس

پیر 6 جولائی 2015 17:40

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جولائی۔2015ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ گوجرانوالہ ٹرین حادثے سے متعلق ابھی تک حتمی تحریری رپورٹ سامنے نہیں آئی اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ آنے میں مزید تین سے چار روز لگ سکتے ہیں ، انجن کے جائے حادثہ سے 945فٹ پہلے موڑ کاٹتے ہوئے پٹڑی سے اترنے کے شواہد مل چکے ہیں جبکہ ٹریک کے نٹ بولٹ کھلے ہوئے اورفش پلیٹیں بھی ٹوٹی اور کھلی ہوئی پائی گئی ہیں ،ڈرائیور نے 26کلو میٹر پہلے ڈیڈ سٹاپ پر ٹرین روک کر رجسٹر پر بھی دستخط نہیں کئے اور ٹرین کی رفتار بھی مقررہ حد سے زیادہ تھی اس تناظر میں تمام محرکات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ریلوے ہیڈ کوارٹر میں محکمے کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ انتہائی المناک حادثہ ہے جس میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ۔ حادثے کے فوری بعد پاک فوج سمیت دیگر اداروں نے ریسکیو آپریشن میں بھرپور حصہ لیا جس سے کئی قیمتی جانیں بچ گئیں جس پر ہم آپریشن میں حصہ لینے والے اداروں اور انکے اہلکاروں کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد ریلوے کے اپنے قانون کے مطابق تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا لیکن بعد ازاں اعلیٰ سطحی جوائنٹ انوسٹی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں پاک فوج اور محکمہ ریلوے کے اعلیٰ افسران شامل کئے گئے۔ جے آئی ٹی نے 72گھنٹوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھی لیکن حادثے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ وقت انتہائی کم تھا اور امید ہے کہ آئندہ تین سے چار روز میں جے آئی ٹی حتمی تحریری رپورٹ پیش کر دی جائے گی جس میں حادثے کے تمام محرکات سامنے آسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کام میں مداخلت کی ہے او رنہ کی جائے گی بلکہ حادثے کے محرکات کا ہر پہلو سے جائزہ لینا ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔یہاں تک کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ آ گئی ہے لیکن ابھی تک اس کی کوئی ابتدائی رپورٹ سامنے نہیں آئی اور ہم اس کا انتظار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حادثے کے بعد ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہیڈ چھناواں پل ٹرین آپریشن کے لئے خطرناک تھا حالانکہ مذکورہ پل ریلوے آپریشن کے لئے مکمل فٹ تھا اور یہ ان 169پلوں میں بھی شامل نہیں جنہیں دوبارہ مرمت کیا جارہا ہے ۔

حادثے کے بعد 150ٹن کے انجن نے پلرکو کوٹا ہے جبکہ باقی اس کے پلر ابھی بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے ٹریک بھی بالکل ٹھیک تھا او رانجینئرنگ شعبے کی طرف سے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی تھی اور حادثے سے قبل سوا ایک بجے پاکستان ایکسپریس کا 65کلو میٹر کی رفتار سے اس پل سے بحفاظت گزرنا ا س کا ثبوت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ شواہد مل چکے ہیں کہ جائے حادثہ سے 945فٹ پہلے موڑ کاٹتے ہوئے انجن پٹڑی سے اتر گیا گیا تھا جبکہ ٹریک کے نٹ بولٹ بھی کھلے ہوئے تھے جبکہ فش پلیٹیں بھی ٹوٹی اور کھلی ہوئی تھی ۔

اب جائزہ لیا جارہا ہے کہ نٹ بولٹ اور فش پلیٹیں انجن کے پٹڑی س اترنے کی وجہ سے متاثر ہوئے یا جان بوجھ کر شرارٹ کی گئی اور دونوں آپشنز کاجائزہ لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرائیور نے ایس او پی کے مطابق ایمر جنسی بریک بھی لگائی ۔ایسا بھی ہو سکتاتھا کہ اگر ڈرائیور ایمر جنسی بریک نہ بھی لگاتا تو انجن تین سے چار کوچز کو لے کر پل سے گزر سکتا تھا اور ٹرین حادثے سے بچ بھی سکتی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ ٹرین کی مقررہ حد سے زیادہ رفتاربھی ثابت ہوئی ہے اور اس حوالے سے بیانات لئے گئے ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے سے 26کلو میٹر پہلے ڈیڈ سٹاپ پر ٹرین کو ہر حال میں رکنا ہوتا ہے اور ڈرائیور کو رجسٹر پر دستخط کرنا ہوتے ہیں لیکن ڈرائیور نے وہاں ٹرین نہیں روکی حالانکہ وہاں پر اسے سرخ جھنڈی بھی دکھائی گئی جائزہ لیا جارہا ہے کہ ٹرین اوور سپیڈ کیوں تھی اور ڈرائیور کو کیا جلدی تھی کہ اس نے ٹرین کو حد سے زیادہ رفتار سے چلایا ۔

انہوں نے بتایا کہ انجن کو بھی پانی میں سے باہر نکال لیا گیا ہے اور اسے بھی ایگزامن کیا جائے گا کہیں اس میں تو فالٹ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والا انجن 1967میں ریلوے میں شامل ہوا اور 2003ء میں اسے 15سال کے لئے ری ہیبلیٹ کیا گیا او راسکی عمر 2018 تھی او ریہ 14لاکھ کلو میٹر چل چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ریلوے کے زیر استعمال پلوں کی کل تعداد 13959ہے جن میں سے 2008ء میں 169پلوں کی دوبارہ مرمت کا منصوبہ بنایا گیا لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان پلوں کو آپریشن کے لئے خطرناک قرار نہیں دیا گیا ۔

جہاں کسی پل کی حالت خطرہ ظاہر کرتی ہو وہاں پر سپیڈ کی حد مقرر کر دی جاتی ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سپیشل ٹرین کی سکیورٹی بارے یہاں بات نہیں کی جا سکتی ۔ انجن میں آرمی کا ایک نمائندہ اور اسسٹنٹ ڈرائیور بھی موجودتھا جن کا بیان لیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ہمارے ٹریکس آپریشن کے لئے ٹھیک ہیں لیکن جہاں کوئی مسائل ہیں وہاں سپیڈ کی حد مقرر کی گئی ہے ۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں حادثہ پیش آیا وہاں کے ٹریک کے لئے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی قدغن نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ ٹرین میں گارڈ کی جگہ دوسرا آدمی کیوں موجود تھا ۔

متعلقہ عنوان :