کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کیلئے 238 ارب روپے کے 180 منصوبے شروع کئے جار ہے ہیں ، پنجاب کیلئے 9 ارب کے 11 ، سندھ کیلئے 19 ارب کے 20 ، خیبر پختونخواہ کیلئے 6 ارب کے 11 ، بلوچستان کیلئے29 ارب کے 65 منصوبوں پر کام کاآغاز کیاجائیگا ، آزادکشمیر کے 22 منصوبوں کیلئے23 ارب ، گلگت بلتستان کے 35 منصوبوں کیلئے 22 ارب اور فاٹا کے 13 منصوبوں کیلئے 121 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،کم ترقی یافتہ علاقوں بارے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کو سیکرٹری منصوبہ بندی وترقی کی بریفنگ

جمعہ 3 جولائی 2015 17:27

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 جولائی۔2015ء ) کم ترقی یافتہ علاقوں بارے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کو سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے بتایا کہ حکومت کم ترقی یافتہ اضلاع کی ترقی کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور موجودہ مالی سال میں اس مقصد کیلئے 238 ارب روپے کے 180 منصوبہ جات شروع کر رہی ہے پنجاب کیلئے 9 ارب کے 11 منصوبے، سندھ کیلئے 19 ارب کے 20 ، خیبر پختونخواہ کیلئے 6 ارب کے 11 منصوبے ، بلوچستان کیلئے29 ارب کے 65 منصوبے ، اے جے کے کیلئے 23 ارب کے 22 منصوبے ، گلگت بلتستان کیلئے 22 ارب روپے سے 35 منصوبے اور فاٹا کے 13 منصوبوں کیلئے 121 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

جمعہ کو سینیٹ کی کمیٹی فنکشنل برائے کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی محمد عثمان خان کاکٹر کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

سیکرٹری برائے پلاننگ ڈویلپمنٹ حسن نواز تارڑ نے فنکشنل کمیٹی کو پی ایس ڈی پی 2015-16 کی مد میں رکھے گئے فنڈز اور منصوبہ جات جو کم ترقی یافتہ علاقوں کی فلاح وبہبود بارے تھے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب پاکستان بنا تو وسائل کم تھے پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے پاس ذخیرہ اور ترقی یافتہ علاقے رہ گئے پاکستان کو جنگی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستان کے وہ علاقے جو پسماندہ تھے ان میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابرکئے گئے ۔

پاکستان کی آبادی میں پانچ سال میں اتنا اضافہ ہوتا ہے جتنا براعظم آسٹریلیا کی آبادی ہے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی کی بڑ ی وجہ غیر موثر منیجمنٹ بھی رہی ہے دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں ملک کی ترقی میں خواتین کی ترقی کا کردار انتہائی کم ہے ۔ انہوں نے فنکشنل کمیٹی کو بتایا کہ 2012-13 میں پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈر مئیرمنٹ نے ایک سروے کرایا تھا جس کے مطابق بلوچستان کے 25 ، پنجاب کے 4 ،خیبر پختونخواہ کے 9، سندھ کے 8 ،فاٹا ، آزاد جمو ں کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام اضلاع پسماندگی کا شکا رہیں حکومت ان اضلاع کی ترقی کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور موجودہ مالی سال میں اس مقصد کیلئے 238 ارب روپے کے 180 منصوبہ جات شروع کر رہی ہے پنجاب کیلئے 9 ارب کے 11 ، سندھ کیلئے 19 ارب کے 20 ، خیبر پختونخواہ کیلئے 6 ارب کے 11 منصوبے ، بلوچستان کیلئے29 ارب کے 65 منصوبے ، اے جے کے کیلئے 23 ارب کے 22 منصوبے ، گلگت بلتستان کیلئے 22 ارب روپے سے 35 منصوبے اور فاٹا کے 13 منصوبوں کیلئے 121 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔

رکن کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بلوچستان کا بنیادی ایشو پانی ہے ۔بلوچستان کیلئے پانی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور 68 سالوں میں نہ کوئی بجلی کا منصوبہ بنا یا گیا ہے جب تک بلوچستان کے لئے پانی کے وسائل کے منصوبے نہیں بنائیں جائیں گے بلو چستان ترقی نہیں کر سکتا بلوچستان کے پہاڑوں پر بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جس کا پانی افغانستان نکل جاتا ہے وہاں ڈیم بنا کر پورے صوبے کی پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے ۔

بلوچستان میں ہوا ،کوئلہ ، گیس اور سورج کی روشنی سے بہت زیادہ بجلی بنائی جاسکتی ہے ۔780 کلو میٹر ساحل سمندر کا علاقہ ہے سیاحت کو فروغ دے کر صوبے کی ترقی میں کردار ادا کیا جاسکتا ہے وہاں سے 90 ارب روپے کی فشری کا کاروبار بھی کیا جاسکتا ہے ۔ رکن کمیٹی سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی زندگیاں بہت مشکل ہیں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کیلئے صرف 4 ارب روپے بجٹ میں مختص کرنا بہت کم ہیں جبکہ پورے پنجاب کا 62 فیصد حصہ جنوبی پنجاب پر مشتمل ہے جو کہ پسماندگی کا شکا رہے ۔

این ایف سی ایوارڈ کا پیسہ صوبے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی بجائے ان اداروں کی سفارشات کے مطابق خرچ کریں تاکہ پسماندہ علاقوں کی پسماندگی ختم ہو سکے ۔ رکن کمیٹی سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں صحت اور پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ دریاؤں پر چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے انہوں نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کیلئے ایک علیحدہ وزارت انتہائی ضروری ہے ۔

ممبر کمیٹی سنیٹر گیان چند نے کہا سندھ میں کسی ترقیاتی منصوبے پر کام نہیں ہو رہا ہے ۔صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی زمدار ہے ۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ بلوچستان میں کچھ علاقوں سے زیر زمین پانی 40 فٹ نیچے موجود تھا آج وہ 8 سو فٹ سے بھی زیادہ نیچے چلا گیا ہے بلوچستان میں پانی ، صحت ، بجلی ، گیس کی سہولیات موجود نہیں ہیں البتہ صوبے کے پاس قدرتی وسائل کی بہتات ہے اگر ان کا موثر استعما ل کیا جائے بلوچستان کے مسائل کم ہو سکتے ہیں چیئرمین کمیٹی محمد عثمان خان کاکٹر نے کہا کہ بریفنگ میں جو کچھ بتایا گیا ہے حقیقت میں نمایاں فرق ہے کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے 238 ارب روپے بہت کم ہیں ۔

وزارت خزانہ اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کم ترقی یافتہ علاقوں کی بہتری کیلئے موثر منصوبہ بندی کر یں ، پانی کے وسائل کے متعلق حکومت ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ بلوچستان کی 80 فیصد زراعت تباہ ہو چکی ہے بے روزگاری کے خاتمے کیلئے 80 فیصد لوگ کم ترقی یافتہ علاقوں سے بھرتی کیے جائیں ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ کا 50 فیصد کم ترقی یافتہ علاقوں پر خرچ کیا جائے ۔

وزیراعظم نے 30 ہزار سولر ٹیوب ویل لگانے کا اعلان کیا تھا ان کا 70 فیصد ان علاقوں کیلئے مختص کیا جائے ۔قومی صحت میں بڑا بجٹ رکھا گیا ہے اس کا 80 فیصد کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے رکھا جائے اور آئندہ بجٹ میں ان علاقوں کے مسائل کو ترجیع دی جائے جو کم ترقی یافتہ ہیں ۔کمیٹی نے پاکستان بیورو آف شماریات سے سروے کرانے کی سفارش بھی کر دی تاکہ حکو مت کو کم ترقی یافتہ علاقوں بار ے صحیح آگاہی حاصل ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے جو اعدادوشماربلوچستان سے منسوب ہیں وہ بھی درست نہیں وزیراعظم جس طرح پنجاب کے لیے کام کرتے ہیں اسی طرح دوسرے صوبوں کے لیے بھی کام کریں۔