2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے کارروائی مکمل کر کے اپنی رائے محفوظ کر لی

جمعہ 3 جولائی 2015 16:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 جولائی۔2015ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی عدالتی کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کر کے اپنی رائے محفوظ کر لی ہے تفصیلات کے مطابق کمیشن کے 86 روز کے دوران 39 اجلاس ہوئے جس میں پارلیمنٹ میں موجود متعدد سیاسی جماعتوں نے اس عدالتی کمیشن کی کارروائی میں حصہ لیا۔

جمعہ الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کسی طور پر بھی ان انتخابات میں منتظم دھاندلی کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔اْنھوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی انتخابات تکنیکی غلطیوں سے پاک نہیں ہوتے تاہم اْنھیں کسی طور پر بھی منظم دھاندلی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ان انتخابات میں دھاندلی کے ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کیے جا سکے اور محض مفروضوں پر دھاندلی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

کمیشن کے سربراہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ پنجاب میں ریٹرننگ افسران کو یہ ذمہ داری کیوں دی گئی کہ وہ بیلٹ پیپروں کی چھپائی کیلئے اپنی تجاویز دیں ‘دیگر صوبوں میں الیکشن کمیشن نے رجسڑڈ ووٹروں کے حساب سے بیلٹ پیپر چھاپے تھے؟اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ پنجاب میں بھی رجسڑڈ ووٹروں کے حساب سے بیلٹ پیپر چھاپے گئے تھے۔

اْنھوں نے کہا کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں تاہم ان کو کسی طور پر بھی منظم دھاندلی کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وکلا اب اپنی چھٹیاں منائیں جبکہ کمیشن اپنا کام جاری رکھے گا۔اجلاس کے دور ان جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ صرف پنجاب میں ہی ریٹرننگ افسران نے بیلٹ پیپرز کا تعین کیا،باقی صوبوں میں صوبائی الیکشن کمشنرز نے یہ فیصلہ کیوں کیا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بیلٹ پیپرزکی تعداد کا تعین صوبائی الیکشن کمیشن کرتا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک صوبے میں الگ اورباقی صوبوں میں الگ طریقہ کیوں اپنایا گیا،الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرز کی تعداد کی مانیٹرنگ کیوں نہیں کی یکساں فارمولا نہ ہونے کا الیکشن کمیشن نے نوٹس کیوں نہیں لیا۔

سلمان اکرم نے کہا کہ جتنے آر اوز کمیشن کے سامنے پیش ہوئے انہوں نے بتایا کہ ضرورت کے مطابق بیلٹ پیپرز بھجوائے اور اضافی اپنے پاس رکھے۔ پنجاب میں ووٹرز کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ تھی جس کی وجہ سے آر اوز کو عمل میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے بجائے آر اوز کو فارم پندرہ اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ آر اوز کی ذمہ داری الیکشن کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ مواد الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔