بلوچستان میں کم ٹرن آوٹ کوئی نئی بات نہیں ، پہلے ہونے والے انتخابات میں بھی آؤٹ کم ہی رہاہے شاہد حامد

نجم سیٹھی کے حوالے سے ثابت نہ ہوسکا الیکشن پراثراندازہوئے تھے، الیکشن کے دوران کسی پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کوہٹانے کاکوئی الزام سامنے نہیں آیا مسلم لیگ (ن)کے وکیل کے دلائل اگرایک پولنگ سٹیشن میں رجسٹرڈووٹرز کے پیش نظر تعداد راؤنڈفگر میں چھپوائی گئی تھی تو آراوز کواضافی بیلٹ پیپرزاپنے پاس رکھنے کامقصد کیاتھا جسٹس اعجاز افضل

جمعرات 2 جولائی 2015 21:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 جولائی۔2015ء)عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل انکوائری کمیشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ(ق) ،جماعت اسلامی ،بی این پی مینگل اوربی این پی عوامی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد (آج )جمعہ کو ایم کیو ایم اور الیکشن کمیشن کے وکلاء دلائل دیں گے۔ جمعرات کو چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے الیکشن 2013ء میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے معاملے کی سماعت کی۔

اپنے دلائل میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ بلوچستان میں کم ٹرن آوٹ کوئی نئی بات نہیں ،اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں بھی وہاں ٹر ن آؤٹ دوسرے صوبوں کی نسبت کم ہی رہاہے ،2008 ء کے الیکشن میں ٹرن آوٹ 31 جبکہ 2013 ء میں 43 فیصد رہا ، الیکشن میں کے پی کے کا ٹرن آوٹ 45 فیصد رہاجس کے پیش نظربلوچستان میں ووٹوں کی شرح کوکم ٹرن آوٹ قرارنہیں دیاجاسکتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایاکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کامینڈیٹ چوری نہیں کیاگیاکیونکہ وہاں اس کامینڈیٹ تھا ہی نہیں ، الیکشن 2013ء کے دوران پی ٹی آئی کو تمام صوبائی نشستوں پرکل 24ہزارووٹ ملے تھے جبکہ قومی اسمبلی کے نو حلقوں سے اسے 40 ہزارووٹ حاصل ہوئے تھے، قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں پراسے امیدوارنہیں ملے تھے ، قومی اسمبلی کی 8حلقوں میں پی ٹی آئی تیسرے نمبرپریا اس سے کمتردرجے پررہی، صرف کوئٹہ کی ایک نشست پرپی ٹی آئی دوسرے نمبرپرآئی تھی ۔

شاہدحامد کاکہناتھا کہ بعض عناصربلوچستان میں الیکشن کرانے کیخلاف تھے لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابات کراکردکھا ئے ،اس طرح فاٹاکے گیارہ میں سے 9 نشستوں پرپی ٹی آئی تیسرے نمبرپریا اس سے بھی پچھلے درجے پر رہی تاہم مسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی نے فاٹا کی ایک ایک نشست حاصل کی ہے ، پنجاب کے حوالے سے انہوں نے بتایاکہ صوبے میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے کل 148 میں سے د س حلقوں پرامیدوارکھڑے نہیں کئے تھے،51 نشستوں پرمسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی میں براہ راست مقابلہ تھا ، 28حلقوں میں وہ تیسرے نمبرپریا اس سے پیچھے رہی اورصرف آٹھ نشستو ں پراسے کامیابی حاصل ہوئی ، تاہم 26حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی جیت کا مارجن بیس ہزارووٹ سے زائد تھا۔

انہوں نے کہاکہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے پنجاب میں 18 پیٹیشنزدائرکیں جن میں سے تیرہ خارج اورایک منظورہوئی جوسپریم کورٹ میں اس وقت بھی زیرالتواہے، چارانتخابی عذاداریاں زیرالتواہیں۔ شاہد حامد نے کہاکہ نجم سیٹھی کے حوالے سے یہ ثابت نہ ہوسکاکہ وہ الیکشن پراثراندازہوئے تھے، الیکشن کے دوران کسی پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کوہٹانے کاکوئی الزام سامنے نہیں آیا اورنہ بیلٹ باکسزمیں ووٹ ٹھونسنے کی شکایت آئی ،ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی مواد وصول اورتقسیم کرنے اورنتائج مرتب کرنے تک کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی، پی ٹی آئی نے فارم 15 کاذکربعد میں کیا۔

شاید حامد نے کہاکہ سب سے زیاد ہ دکھ کی بات یہ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے نام پرعدلیہ کومسلسل نشانہ بنایاگیا اوراب بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس کاعدلیہ کوضرورنوٹس لیناچاہیے۔ شاہد حامد نے تحریک انصاف کی طرف سے جاری وائٹ پیپرزکاحوالہ دیااورکہاکہ پی ٹی آئی نے پیپرکے ساتھ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ،محض الزامات لگانے سے کچھ نہیں بنتا، یہاں کمیشن کے روبرو 22 ریٹرننگ افسران نے پیش ہوئے اوربتایاکہ نتائج مرتب کرتے وقت انہوں نے تمام امیدواروں کونوٹسزجاری کئے تھے ، ہرایک نے کہاکہ پریذائیڈنگ افسران سے فارم 14بروقت وصول کئے گئے ،کہیں آراوز کی جانب سے دھاندلی یامداخلت کرنے یاغیرجانبداری نظرنہیں آئی اس کے ساتھ کسی گواہ نے مسلم لیگ(ن) پردھاندلی کرنے کی بات نہیں کی، منظم دھاندلی کے حوالے سے (ن )لیگ کیخلاف کچھ ثابت نہیں کیاجاسکا ، بیلٹ پیپرزکی تقسیم فوج کی نگرانی میں ہوئی، آرمی نے انتخابی موادکووصول کرنے کے بعد بروقت کھولا اور جانچا اور پھرپریذائیڈنگ افسران کے حوالے کیا ،پولنگ کے بعدپریذائیڈنگ افسران آراوزکے پاس فارم 14 کے ساتھ حاضرہوئے اورنتائج حوالے کئے ، کراچی میں الیکشن کمیشن نے رولزپلان کے مطابق تیارکئے جس کے بارے میں یہ عدالت پہلے ہی دوفیصلے دے چکی ہے اضافی بیلٹ پیپرزکے حوالے سے ان کاکہنا تھا آراوزنے اکثرحلقو ں میں تمام اضافی بیلٹ پیپرزپریذائیڈنگ کونہیں دئیے، بلکہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا تھا تاکہ ہنگامی صورتحال میں ان کواستعمال کیاجاسکے۔

جس پرجسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگرایک پولنگ سٹیشن میں رجسٹرڈووٹرز کے پیش نظر تعداد راؤنڈفگر میں چھپوائی گئی تھی تو آراوز کواضافی بیلٹ پیپرزاپنے پاس رکھنے کامقصد کیاتھا۔ فاضل وکیل نے کہاکہ الیکشن 2013 ء میں کچھ خامیاں ضرور ہیں تاہم اس میں بدنیتی یامنظم دھاندلی کاعنصرشامل نہیں جس پرجسٹس ا میرحانی مسلم نے کہاکہ دوسرے لفظوں میں یہ انتظامی خامیاں ہوسکتی ہیں توشاہد حامد نے کہاکہ کچھ ایسا ہی لگتاہے، جس کی مستقبل میں روک تھام کرنی چاہیے، الیکشن کمیشن کوموثرمیکنزم اوررولزبنانے چاہئیں اور بیلٹ پیپرزکی چھپائی کیلئے آراوزکی ڈیمانڈ کاانتظارکرنا چاہیے، انہوں نے فارم 15 کے حوالے سے کہاکہ فارم 15 کی مسنگ کامعاملہ پورے ملک میں سامنے آیاہے ، جوکے پی کے میں 42.8 ،پنجاب میں38.8 ،سندھ 49 فیصد جبکہ بلوچستان میں48.6 فیصد کم ہیں۔

جس پرچیف جسٹس نے ا ن سے کہاکہ آخراس بات سے کیاثابت ہوتاہے توفاضل وکیل نے کہاکہ پریذائیڈنگ افسران سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن یہ فارم ہرجگہ مسنگ ہیں ، یہاں تک کہ عمران کے اپنے حلقہ این اے و ن میں66 فیصد فارم 15 کم ہیں ریٹرننگ افسران نے الیکشن کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں نتائج تیارکرکے ان کے نوٹیفکیشن جاری کئے۔ شاہد حامد نے بتایاکہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے 137نتائج چیلنج کئے 112 خارج اورپندرہ سنے گئے جن میں سے دس زیرالتوا ہیں سپریم کورٹ میں 20 اپیلیں لائی گئیں چھ نمٹائی جاچکی ہیں۔

انہوں نے موقف اپنایاکہ مسلم لیگ(ن) نے الیکشن میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی تاہم الیکشن میں انتظامی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں لیکن اس میں بد نیتی یا منظم دھاندلی کاعنصر نظر نہیں آیااس لئے اس بنا پر ان انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بی این پی عوامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ صوبے میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوا تھا جس کے ذمہ دارچیف سیکرٹری بلوچستان ہیں جن کے پاس وزیراعلیٰ سے زیادہ اختیارات تھے جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمن صدیقی نے بھی دلائل پیش کئے۔