Live Updates

جوڈیشل انکوائری کمیشن میں (ن)، (ق) لیگ ، بی این پی(عوامی)، جماعت اسلامی ، بی این پی (مینگل) کے وکلاء کے حتمی دلائل مکمل

عمران خان اور طاہر القادری نے لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران کنٹینر سے الیکشن کمیشن پرالزامات عاید کئے ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے استعفیٰ مانگا ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے (ن) لیگ پر انتخابات پراثر انداز ہونے کا الزام لگایا، 2013کے انتخابات تاریخ کے بہترین الیکشن تھے،مسلم لیگ (ن) کے وکیل کے دلائل فارم 15 کے زیادہ تر کالم خالی ہیں، چیف جسٹس ناصر الملک کاشاہد حامد سے مکالمہ

جمعرات 2 جولائی 2015 17:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 جولائی۔2015ء) 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن میں مسلم لیگ(ن)کے وکیل شاہد حامد، (ق) لیگ کے وکیل خالد رانجھا، بی این پی(عوامی) کے وکیل منیر پراچہ، جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمن صدیقی، بی این پی (مینگل) کے وکیل شاہ خاور نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلئے،متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل فروغ نسیم کی فلائٹ منسوخ ہونے کے باعث جوڈیشل انکوائری کمیشن میں پیش نہ ہو سکے، جوڈیشل انکوائری کمیشن نے فروغ نسیم کو (آج) جمعہ کو آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔

جمعرات کو جوڈیشل انکوائری کمیشن کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری نے14 اگست2014 سے لانگ مارچ شروع کیا، دھرنے کے دوران کنٹینر سے الیکشن کمیشن پر حملے کئے گئے، الیکشن کمیشن پر کنٹینر سے جانبداری اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، قادری نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے استعفیٰ مانگا اور عمران خان وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے رہے، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) پر انتخابات پراثر انداز ہونے کا الزام لگایا، سابق چیف جسٹس پر بھی دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، انتخابات میں پی ٹی آئی نے 16 فیصد اور (ن) لیگ نے 32فیصد ووٹ لئے، پی ٹی آئی نے چیئرمین نادرا کی تعیناتی پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، کچھ عرصے سے چیئرمین نادرا پر بے جا تنقید کی جا رہی ہے، چیئرمین نادرا اور سیکرٹری الیکشن کمیشن پر (ن)لیگ سے ملنے کا الزام لگا، عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کو استعفے سے مشروط کیا گیا تھا، (ن) لیگ کا موقف واضح تھا کہ انتخابات شفاف ہوئے، عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں پر الزامات لگ رہے ہیں، حفیظ پیرزادہ اور اعتزاز احسن کے دلائل الزامات کے مطابق ٹھوس نہیں تھے، بلوچستان کے ریٹرننگ افسران سے پی ٹی آئی نے اضافی بیلٹ پیپرز کا نہیں پوچھا اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں مینڈیٹ چوری ہونے کی شکایات کیں، پنجاب کی 79 نشستوں پر تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی، 10 نشستوں پر انہوں نے امیدوار ہی کھڑے نہیں کئے جبکہ بلوچستان سے پی ٹی آئی کوئی سیٹ بھی نہیں جیت سکی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ (ق) لیگ نے افتخار چوہدری پر دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا،(ق) لیگ نے سابق چیف جسٹس کے ریٹرننگ افسران سے خطاب کا متن بھی دیا، چیف جسٹس نے شاہد حامد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ افتخار چوہدری کی تقریر کا متن پڑھیں، شاہد حامد نے کہا کہ عالمی مبصرین کے مطابق یہ تاریخ کے بہترین الیکشن تھے، نادرا کے مطابق 39میں سے 22 اپیلیں مسترد ہوئیں،10 اپیلیں زیر سماعت ہیں، صرف ایک کا تعلق پنجاب سے ہے، سندھ میں مجموعی طور پر 45فیصد فارم15 غائب ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فارم 15 کی گمشدگی سے کیا تاثر ملتا ہے، شاہد حامد نے جواب دیا کہ فارم 15کی گمشدگی پریزائیڈنگ افسران کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے، پنجاب میں پریزائیڈنگ افسران کی کارکردگی دیگر صوبوں سے بہتر تھی، حلقہ این اے 21 مانسہرہ میں سے صرف 21فیصد فارم 15 غائب ہیں۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے فارم 15 دیکھے ہیں، فارم 15 کے زیادہ تر کالم خالی ہیں۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ امیدوار کا فارم 15 سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ریٹرننگ افسران کی جانبداری سے متعلق کوئی شواہد نہیں آئے، ریٹرننگ افسران پر شواہد کے بغیر الزامات لگانا مناسب نہیں،بیلٹ پیپرزکسی نجی پرنٹنگ پریس سے نہیں چھپوائے گئے ، قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 137 حلقوں کے نتائج چیلنج ہوئے۔

جوڈیشل انکوائری کمیشن میں (ق) لیگ کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جن امیدواروں نے بیانات ریکارڈ کرائے ان کی تفتیش ہونی چاہیے، انتخابی عمل کے دوران جو کمزوریاں سامنے آئیں انہیں جانچنا ہوگا، عدالتی ماحول تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کمیشن کے ارکان جج اور ہم وکیل کے طور پر پیش ہو جاتے ہیں، جج صاحبان ہمیں وکیل نہیں بلکہ عام آدمی سمجھ کر دلائل سنیں، الیکشن شفاف ہوئے یا نہیں فیصلہ انکوائری کمیشن کرے ۔

انکوائری کمیشن میں بی این پی(عوامی) کے وکیل منیر پراچہ نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں الیکشن شفاف نہیں ہوئے، حکومتی مشینری شفاف الیکشن کرانے کی ذمہ دار تھی، ڈپٹی اسپیکر بلوچستان صرف 300 ووٹ لے کر منتخب ہو گئے۔ جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمن صدیقی نے جوڈیشل انکوائری کمیشن میں حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے دلائل کا محور کراچی سے فاٹا ہے، الیکشن کمیشن نے انکوائری کمیشن میں ہمارے سوالات کا جواب نہیں دیا، کراچی میں ووٹر لسٹیں قانون کے مطابق تیار نہیں کی گئیں، عوام کو دکھانے کیلئے میڈیا میں کچھ کام ضرور کئے گئے، ایم کیو ایم الیکشن میں فوج تعینات کرنے کے حق میں نہیں تھی، حلقہ این اے 250 کا ضمنی انتخاب فوج کی نگرانی میں ہوا تو ایم کیو ایم ہار گئی، نوگو ایریاز میں پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے، پولنگ عملہ بھی ایم کیو ایم کا ہی تھا، سر عام دھاندلی ہوئی،450شکایات میں سے صرف 30 پر عمل ہوا۔

جوڈیشل انکوائری کمیشن میں بی این پی(مینگل) کے وکیل شاہ خاور نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ بلوچستان میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کا کردار صرف علامتی تھا، تمام دھاندلی کے ماسٹر مائنڈ چیف سیکرٹری بلوچستان تھے، وزیر اعلیٰ عبدالمالک کے حلقے کے آر او کو غائب کر دیا گیا، الیکشن کے اگلے روز آر او کو چیف سیکرٹری نے عہدے سے ہٹا دیا، وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے عبدالمالک کو دھاندلی سے الیکشن جتوایا گیا،ڈی آر او نے پنجگور میں الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست دی، الیکشن کمیشن نے ڈی آر او کی درخواست پر کسی نے کان نہیں دھرے، تمام اختیارات چیف سیکرٹری بلوچستان کے پاس تھے، بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مکمل بے اختیار تھے، نگران وزیر اعلیٰ کو کابینہ بنانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے سوال کیا کہ وزیر اعلیٰ کو کابینہ بنانے سے کس نے روکا اور چیف سیکرٹری کو اتنے اختیارات کس نے دیئے، شاہ خاور نے جواب دیا کہ چیف سیکرٹری کو عبدالمالک کو جتوانے کا ٹاسک دیا گیا تھا، جوڈیشل انکوائری کمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما میاں عتیق نے پیش ہو کر کہا کہ بیرسٹر فروغ نسیم کی فلائٹ منسوخ ہو گئی ہے، ہمیں وقت دیا جائے، ہمارے دلائل وہی ہیں جو تحریری طور پرپیش کئے گئے، کمیشن نے ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کو(آج) جمعہ کو پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ آج صبح آدھے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کریں۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات