`اسلحہ خریداری کیس،سندھ حکومت سے7 جولائی تک تفصیلی جواب طلب

وہ دن گئے جب سب کچھ خاموشی سے ہوتا تھا اب سب کچھ اوپن اور قانون کے مطابق ہوگا،سرکاری خرانہ مال مفت دل بے رحم نہیں، جسٹس جواد خواجہ سندھ حکومت پتہ کرکے بتائے کہ جو ہیلی کاپٹر خریدے اٹالین فورسز خود بھی استعمال کر تی ہیں یا صرف ہمیں فروخت کرنے کیلئے بنائے، جسٹس عظمت سعید معاہدہ کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد جاری ہے سندھ حکومت نے کوئی خط ارسال نہیں کیا،درخواست گزار محمود اختر نقوی ،سماعت ملتوی`

پیر 29 جون 2015 18:31

`اسلحہ خریداری کیس،سندھ حکومت سے7 جولائی تک تفصیلی جواب طلب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جون۔2015ء) سپریم کورٹ نے اسلحہ خریداری کیس میں7 جولائی تک سندھ حکومت سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن گزر گئے جب سب کچھ خاموشی سے کر لیا جاتا تھا اب سب کچھ اوپن طریقے سے اور قانون کے مطابق ہی ہوگا۔سرکاری خرانہ مال مفت دل بے رحم نہیں۔30لاکھ روپے عرفان قادر کو کس مد میں سے دئیے گئے،یہ عوام کا پیسہ ہے اور ادھر ادھر نہیں کیا جاسکتا۔

سندھ حکومت قانون کے دائرے میں رہ کر بھی تو خریداری کرسکتی تھی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سندھ حکومت پتہ کرکے بتائے کہ جو ہیلی کاپٹر سندھ حکومت نے خریدے تھے کیا اٹالین فورسز خود بھی استعمال کر رہی ہیں یا صرف ہمیں فروخت کرنے کیلئے بنائے گئے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے فاروق ایچ نائیک کو پرائیویٹ کونسل اس کیس میں مقرر کردیا ہے اگلی سماعت پر وہ پیش ہوں گے۔

ایڈیشل ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدنان کریم چمن نے عدالت کو بتایا کہ کل139 فائرٹینڈرز خریدنے تھے پاکستان انجینئرنگ منگھو پیر کراچی سے لینے تھے اس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یہ تو پھر اپنے ہوئے بہرحال کیا قواعد وضوابط کا خیال رکھا گیا جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ انہوں نے پیرا رولز کا خیال نہیں رکھا۔اے پی سی آسان کیس تھا پہلے دن ہی پتہ چل گیا کہ سندھ حکومت نے غلط معاہدہ کیا ہے وہ ہم نے کالعدم قرار دے دیا تھا اب مزید سامان بارے بتایا جائے کہ وہ کیسے خریدا گیا،اس پر سندھ حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹرز کی خریداری کے معاملے میں فاروق ایچ نائیک کو وکیل مقرر کیا گیا تھا،عدالت نے پوچھا کہ عرفان قادر کو30لاکھ روپے کی فیس کہاں سے دی گئی تھی تو پھر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ قومی خزانے سے دی گئی۔

آئی جی سندھ کے لئے جو فنڈز قائم کیا گیا تھا اس میں سے دی گئی۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ان کا پیسہ تھوڑا تھا وہ تو عوام الناس کا پیسہ تھا اس دوران درخواست گزار محمود اختر نقوی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی جانب سے معاہدہ کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد جاری ہے اور معاہدہ ختم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے کوئی خط ارسال نہیں کیا ہے یہ سب خاموشی سے کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس سے بنک بیلنس حاصل کئے ہیں جو وہ اپنے دلائل سے ثابت کریں گے۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ پہلے خاموشی سے ایسا ہوتا تھا اب سب کچھ اوپن ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے سندھ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت7جولائی تک ملتوی کردیا`

متعلقہ عنوان :