پاکستان کا ہر شہری کرپشن اور بدعنوانی سے پاک اچھی حکمرانی کا خواہش مند ہے ‘کرپشن میں ملوث اہم شخصیات کو عبرتناک سزا ہونی چاہیے ‘صدر ممنون حسین

پیر 29 جون 2015 15:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جون۔2015ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری ملک میں کرپشن اور بدعنوانی سے پاک اچھی حکمرانی کا خواہش مند ہے ‘کرپشن میں ملوث اہم شخصیات کو عبرتناک سزا ہونی چاہیے، آنے والا کل ہمارے ماضی اور حال سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہتر ہوگا ‘قومی امور کے بارے میں عوام اور حکومت کے درمیان کوئی خلا باقی نہیں رہے گا ‘ کوئی معاشرہ اس وقت تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک اس میں احتساب کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل نہ ہوجائے ‘متعلقہ ادارے اپنی استعداد کو بڑھاتے ہوئے کرپشن کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔

پیر کو احتساب اور گڈ گورننس کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے شرکاء سے کہاکہ اس سیمینار میں آپ کی شرکت اور اِس میں زیربحث امور میں آپ کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ وطنِ عزیز میں احتساب اور اچھی حکمرانی قومی ترجیحات میں شامل ہے اور پاکستان کا ہر شہری ملک میں کرپشن اور بدعنوانی سے پاک اچھی حکمرانی کا خواہش مند ہے۔

(جاری ہے)

آج کا یہ سیمینار ظاہر کرتا ہے کہ ان عوامی خواہشات میں ریاست کے ادارے بھی شریک ہوچکے ہیں جو ایک اچھی اور حوصلہ افزا علامت ہے۔

عوام اور سرکاری ادارے جب کسی معاملے میں ہم خیال ہوجائیں توپھر ملک میں مثبت اور اچھی تبدیلیوں کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں آنے والا کل ہمارے ماضی اور حال سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہتر ہوگا۔ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اِن سازگار عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور عدالتی سطح پر اس عزم کو مضبوط بنائیں اور اس حوالے سے رائج عالمی معیارات پر عمل درآمد کویقینی بنادیں تاکہ عوام اور ہمارے ادارے عالمی برادری کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔

اِس ضمن میں میرا ویژن یہ ہے کہ بدعنوانی جیسی معاشرتی برائی کا سدباب کرنے کے لیے مادی اور دنیوی عوامل کے ساتھ ساتھ انسان کی روحانی کیفیات پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اِس گمبھیر مسئلے کی بنیاد صرف ناانصافی، معاشرتی ناہمواری اورہو سِ زر ہی نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ترین وجہ دینی اور اخلاقی اقدار سے دوری بھی ہے۔اس طرح کی صورت حال میں ضروری ہے کہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے پہلو بھی پیش نظر رکھے جائیں ۔

اس فریضے کی ادا ئیگی میں خاندان کے علاوہ معاشرے میں اثرات رکھنے والے دیگر لوگ بھی اپنا کردار ادا کریں اوربدعنوان عناصر کو اُن کے طرز عمل کے نقصانات سے آگاہ کرکے اخلاقی دباوٴ کے ذریعے ان کی اصلاح کی کوشش کر یں۔

یہ طریقہ ناکام ہو جائے تو پھر ریاست کو متحرک ہوجانا چاہئے جو مجرم کو سخت سزا دے کر نشانِ عبرت بنادے۔صدر مملکت نے کہاکہ گزشتہ برسوں کے دوران بدعنوانی اورکمزورحکمرانی کی وجہ سے ہمیں اقوام عالم کے سامنے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں عوام کا قومی اداروں پر ہی نہیں بلکہ ریاست پربھی اعتماد متزلزل ہوا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے بعض اعلیٰ مناصب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلے گئے جن کی توجہ نہ اچھی حکمرانی پر تھی اور نہ انھوں نے بدعنوانی کی بیخ کنی کو ضروری سمجھا۔اگر ایسا نہ ہوتا اور عوامی مسائل کے حل اور کاروباری ماحول کی بہتری کو ترجیح دی جاتی تو اس کے نتیجے میں ہمارے بیشتر مسائل حل ہوجاتے۔انہوں نے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے سفارشات کی تیاری کا کام پلاننگ کمیشن کے سپرد کیا گیا ہے۔

یہ ایک درست قدم ہے ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے ۔یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہم سرکاری شعبے کی مینجمنٹ میں شفافیت کو فروغ دے کر حکومت کے اقدامات، فیصلوں اور پالیسیوں میں کُھلا پن پیدا کرسکیں۔اس کے نتیجے میں حکومت اور ریاست پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور قومی امور کے بارے میں عوام اور حکومت کے درمیان کوئی خلا باقی نہیں رہے گا۔

صدر مملکت نے کہاکہ کوئی معاشرہ اس وقت تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک اس میں احتساب کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل نہ ہوجائے اور اس مقصد کا حصول اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاستی اداروں کو قوم، اُس کے معاشرتی اداروں اور ذرائع ابلاغ کا تعاون حاصل نہ ہو۔میں یہ کہتے ہوئے دکھ محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے سرکاری ادارے بے شمار وجوہات کے سبب عوامی اعتماد سے محروم ہیں اور لوگ ان کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے تحفظات رکھتے ہیں ۔

عوامی اعتماد کی بحالی صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر احتساب اور اچھی حکمرانی کے فروغ کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کی تنظیم نو کی جائے اور شفافیت کے ذریعے عوام کی اطلاعات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے ضمن میں ناگزیر ہے کہ غیرضروری اور پیچیدہ قوانین کو منسوخ کرکے نئے اور موٴثر قوانین متعارف کرائے جائیں۔ سرکاری اداروں کے اندا زِکار میں تیزی لائی جائے اوراِن کے طریقہء کار میں جدت پیدا کی جائے ۔

اس سلسلے میں ہم دنیا کے مختلف ملکوں میں رائج قوانین سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جن میں ہانگ کانک، سنگاپور، ملائشیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ سرکاری خریداری کے نظام کو بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پرانے اور فرسودہ طور طریقوں پر کاربند رہ کر ہم کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکیں گے۔

اس سلسلے میں؛میں آپ کی توجہ بدعنوانی کے خلاف اقوم متحدہ کے کنونشن کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں جسے اختیار کرکے ہم مختلف شعبوں میں بدعنوانی کے خلاف اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں نجی شعبہ بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔صدر مملکت نے کہاکہ اخراجات میں خاطر خواہ کمی اِس کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں کمی اور ان کی کارکردگی میں اضافے کے لیے ہمیں ای گور نمنٹ اور ٹیلی کانفرنسنگ کے طریقے اختیا ر کرنے چاہئیں تاکہ کم وقت اور کم اخراجات کے ذریعے تیزی سے فیصلے کرکے عوام کے مسائل حل کیے جاسکیں۔

وزیر اعظم معائنہ کمیشن نے بجلی کی کمی، اشیائے صرف کی قیمتوں کے تعین ، مارکیٹ میں طلب اور رسد کے مسائل ، پینے کے پانی کی فراہمی اور ماحولیات جیسے شعبوں میں قابل قدر کام کیا ہے، میں چاہتاہوں کہ اپنے شہروں اورسیاحتی مقامات کی خوبصورتی اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے بھی آپ اپنا کردار ادا کریں،اس کے نتیجے میں ہماری بستیاں اور شہر خوبصورت اور آلودگی سے پاک ہوں گے اور ہم غیر ملکی سیاحوں کو بھی اپنے سیاحتی،ثقافتی اور تاریخی ورثے کی طرف متوجہ کرسکیں گے ۔

اسی طرح ہم تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول کو سرخ فیتے سے پاک کرکے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ کا ادارہ قابل قدر کردار ادا کرسکتا ہے۔صدر مملکت نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ بدعنوانی کے خاتمے اوراچھی حکمرانی کے فروغ کے سلسلے میں ہماری کوششوں میں برکت پیدافرمائے تاکہ ہم اِن اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہوجائیں اور اپنے وسائل قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکیں۔قومی اہمیت کے اس اہم ترین موضوع پر سیمینار کے انعقاد پر میں وزیراعظم معائنہ کمیشن کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔