وفاقی بجٹ میں زراعت کے شعبے کیلئے مزید مراعات کا اعلان کیا جائے ، مزدور کی کم سے کم اجرت 15 ہزار روپے کی جائے چاول کے کاشتکاروں کے معاشی تحفظ کیلئے ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جائے ، بجٹ میں گھی ، خوردنی تیل ، سویابین آئل و دیگر غذائی اشیاء پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا گیا ، کرپشن کے خلاف بھی آپریشن ضرب عضب شروع کیا جائے ، سولر ٹیوب ویلوں کیلئے بلاسود قرضوں کا اعلان احسن اقدام ہے

حکومتی و اپوزیشن ارکان عمران ظفر لغاری ، کرن حیدر ، رفیق جمالی،ساجدہ بیگم اور دیگر کا بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال حالیہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے ، جمشید دستی

پیر 15 جون 2015 23:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 جون۔2015ء) حکومتی و اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت کے شعبے کیلئے مزید مراعات کا اعلان کیا جائے ، سرکاری ملازمین کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے کی جائے جبکہ چاول کے کاشتکاروں کے معاشی تحفظ کیلئے ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جائے ۔ بجٹ میں گھی ، خوردنی تیل ، سویابین آئل و دیگر غذائی اشیاء پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا گیا ۔

کرپشن کے خلاف بھی آپریشن ضرب عضب شروع کیا جائے ، سولر ٹیوب ویلوں کیلئے بلاسود قرضوں کا اعلان احسن اقدام ہے ۔ آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے ۔پیپلز پارٹی کے عمران ظفر لغاری نے مالی سال 2015-16 کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ نے زر مبادلہ کے ذخائر غیر ملکی قرضے لے کر اور قومی اثاثے فروخت کر کے بڑھائے ہیں، اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے تو ٹیکسوں کے دائرہ کار کو بڑھانا ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف شروع ہوا تھا لیکن اب اس کا رخ تبدیل ہو رہا ہے، اگر سیکیورٹی ادارے سیاسی بات کریں گے تو انہیں سیاسی جواب ملے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی کرن حیدر نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ مکمل طور پر غریبوں کا بجٹ ہے۔ تحریک انصاف کی رکن اسمبلی منزہ حسن نے کہا کہ بجٹ بناتے ہوئے نہ تو عوام کو اعتماد میں لیا جاتا اور نہ ہی میڈیا پر بحث کرائی جاتی ہے، عوام کو بجٹ آنے کے بعد روٹی کے لالے پڑے گئے ہیں، گھی، خوردنی تیل، سویا بین آئل و دیگر اشیاء پر ٹیکس 5فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا ہے، فنانس بل میں 8 لاکھ 56ہزار ٹیکس دہندگان کا تو ذکر ہے جبکہ6ٹیکس نادہندگان کا کوئی ذکر نہیں۔

(ن) لیگ کے ناصر بوسال نے کہا کہ تمام عالمی ادارے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان معاشی اعتبار سے بہتری کی جانب جانا شروع ہو گیا ہے۔ چاول کے کاشتکاروں کو نقصان سے بچانے کیلئے ایران کے ساتھ تجارت میں بہتری لائی جائے جبکہ کم معیار والے چاول کی چین میں زیادہ مانگ ہے، اس حوالے سے اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں زرعی پالیسیاں ختم ہو جاتی ہیں حالانکہ حکومت زرعی کو بہتر کر کے معیشت کو مستحکم کر سکتی ہے، ہمیشہ زرعی پالیسیاں اسی وقت لائی جاتی ہیں جب کاشتکار کے ہاتھوں سے نکل کر مڈل مین یا ایکسپورٹر کے پاس چلی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اوگرا اور ای او بی کا 125ارب روپے واپس لانے میں کامیاب ہوتے تو کسی کو یہاں کرپشن کی جرات نہ ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ کرپشن کے خلاف بھی ایک آپریشن ضرب عضب شروع ہونا چاہیے۔ رکن قومی اسمبلی نسیمہ احسان نے کہا کہ میٹرو بس منصوبہ ہر صوبے کا حق ہے، ایسا منصوبہ کوئٹہ میں بھی شروع کیا جائے، مزدور کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر جبکہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں دیگر مراعات سپریم کورٹ کے جج یا گریڈ 22کے آفیسر کے برابر کی جائیں۔

جے یو آئی (ف) کے رکن قاری محمد یوسف نے کہا کہ پاکستان میں غیر سودی بینکاری نظام متعارف کرایا جائے، یہ اﷲ کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ پیپلز پارٹی کے رفیق جمالی نے کہا کہ بجٹ میں صرف سولر ٹیوب ویلوں کیلئے قرضوں کا اعلان اچھا اقدام ہے، حکومت کو چاہیے کہ ڈی اے پی و دیگر کھادوں اور زرعی ادویات پر سبسڈی دے، صوبہ سندھ میں شہروں میں دس سے بارہ گھنٹے جبکہ دیہات میں بیس سے بائیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

تحریک انصاف کی ایم این اے ساجدہ بیگم نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو سہولیات فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ می سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم 15فیصد اضافہ کیا جائے، اسلام آباد کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں انہیں بہتر کیا جائے۔ آزاد رکن جمشید دستی نے کہا کہ بجٹ پر بحث ہو رہی ہے جبکہ نہ وزیر خزانہ نہ سیکرٹری خزانہ اور نہ ہی کوئی اور وزیر ایوان کے اندر موجود نہیں۔

کیا ہم دیواروں کو باتیں سنائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ماہوار 40لاکھ روپے سرکاری خزانے سے اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، ماضی میں جو لوگ انگریزوں کے خدمتگار تھے آج بھی ان کے بچے حکمران ہیں، یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جبکہ آئی ایم ایف پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے، کسان اور مزدور، استاد، وکلاء سڑکوں پر ہیں جبکہ حکمران بزدل اور کرپٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ راولپنڈی، اسلام آباد پر46ارب روپے لگے جبکہ اس میں سریا نواز شریف کا اور سیمنٹ میاں منشا کا لگا۔جمشید دستی نے کہا کہ بجٹ میں غریب اور مزدور کو ذبح کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ 40لاکھ روپے کی گھڑی اور سوٹ 40 ہزار روپے کا ہے، ان کے پاس جوتے 30ہزار روپے کے ،عینک دو لاکھ روپے کی اور بلٹ پروف گاڑی 5سے8کروڑ روپے کی جبکہ ان کے کچن کا خرچہ ایک لاکھ 10ہزار روپے یومیہ ہے۔

حکمرانوں نے عوام کو بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بجلی کی اووربلنگ کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کی رپورٹ اب تک نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مسلمانوں کا قاتل ہے مگر اس کو کوئی جواب نہیں دیا گیا، ہم کشمیر کی جنگ جیت گئے مگر مشرف نے ہاری جبکہ کارگل کی جیتی ہوئی جنگ نواز شریف نے بل کلنٹن کے پاس جا کر ہاری ۔