پشاور : خیبر پختونخواہ کا 488 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 15 جون 2015 17:29

پشاور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 15 جون 2015 ء) : خیبر پختونخواہ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مظفر سعید نے آئندہ مالی سال کے لیے کے پی کے کا 488 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا. خیبرپختون خوا کے بجٹ میں ترقیاتی اخرجات کے لیے تقریباً 142 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اس سے قبل صوبائی وزیرِ خزانہ مظفر سعید صوبائی اسمبلی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا کل حجم 488 ارب روپے ہوگا، جس میں تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

نوشہرہ میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کے قیام کے سب سے بڑے منصوبے کو بھی ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے مختص حصے کو 19 سے 21 فیصد بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ تعلیم کے لیے 97 ارب 54 کروڑ سے زائد رکھنے جبکہ صحت کے لیے 29 ارب 95 کروڑ سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وفاقی حکومت سے زیادہ 10 فیصد تک اضا فہ کی تجویز بھی شامل ہے۔

سماجی بہبود، خصو صی تعلیم و تر قی خواتین کے لیے 1ارب، 37 کروڑ، 21 لا کھ روپے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پولیس کے لیے 32 ارب 74 کروڑ52 لاکھ روپے، زراعت کے لیے 3ارب، 51 کروڑ 98 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ماحولیات اور جنگلات کے لیے 1 ارب 83 کروڑ 78 لاکھ روپے جبکہ موا صلات و تعمیرات کے لیے 2ارب 76 کروڑ 36 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرخزانہ نے کہا ’’بجٹ کا بڑا حصہ تعلیمی شعبے کو جائے گا، جس میں پرائمری، سیکنڈری، اعلیٰ تعلیم، ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔

‘‘صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیراعلیٰ پرویز خٹک کابینہ کے اجلاس کی صدارت کریں گے، جس میں 2015-16ء کے بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔یاد رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال تعلیم کے شعبے کے لیے ایک سوگیارہ ارب روپے مختص کیے تھے، جن کے ذریعے 112 نئے منصوبوں کے انقلابی اقدامات کے دعوے کیے گئے تھے۔تاہم یہ 111 ارب روپے خرچ تو ہوئے لیکن 160نئے اسکول نہیں بن سکے، نہ اضافی کمرے تعمیر ہوئے، اور نہ ہی 2004 اسکولوں کو فرنیچر، کمپیوٹر اور اسپورٹس کی سہولت فراہم کی گئی. نوے فیصد سے زائد اسکول تاحا ل بنیادی سہولیات جیسے پینے کا پانی، فرنیچر اور بجلی سے محروم ہیں، یہی نہیں بلکہ صوبے میں 270 اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، جنہیں بحال کرنے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

صوبائی حکومت سرکاری سکولوں کا معیار نجی تعلیمی اداروں کے برابر لانے کے لیے بجٹ 2015-16ء میں بھی خاطرخواہ فنڈز مختص کر رہی ہے.

متعلقہ عنوان :