ہندوستان میں دہشت گردی مخالف قانون صرف کشمیریوں ومسلمانوں کی آواز کو دبانے کیلئے بنائے جاتے ہیں؛ مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا لا جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں کشمیر سیمینار سے خطاب

ہفتہ 13 جون 2015 14:17

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 جون۔2015ء) ہندوستان میں دہشت گردی مخالف قانون صرف کشمیریون اور مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ نریندر مودی اور ساکشی مہاراج جیسے ہزاروں ہندو (جن پر قتل کے مقدمات درج ہیں) کو آزاد چھوڑ کر زہرافشائی کا موقع دیا جاتا ہے اور مسرت عالم کو صرف آزادی کا نعرہ لگانے کی پاداش میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

ہندوستانی جمہوریت میں دوہرے قانون ہیں۔ مسلمانوں کے لئے الگ قانون بنائے گئے ہیں تاکہ انکی آزادی سلب کی جا سکے۔ ڈاکٹر قاسم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے 22 سال سے قید میں رکھا ہوا ہے جبکہ ہاشم پورہ میں 44 مسلمانوں کے قاتلوں کو آزاد رکھا ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں منعقدہ کشمیر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)

سیمینار میں انسانی حقوق تنظیم کے گوتم نولکھا‘ معروف صہافی سپریم شنکر جاہ‘ پروفیسر وویک جموں کشمیر بار ایسوسی ایشن کے اشرف بٹ اور کشمیر ہائیکورٹ کے وکیل ارشد اندرابی کے علاوہ کشمیر یوتھ سوسائٹی دہلی اور یونیورسٹی طلباء یونین نے شرکت کی۔ سیمینار میں مسرت عالم‘ ڈاکٹر قاسم فکتو اور دیگر سیاسی اسیران کی اسیری کو موضوع بحث بناتے ہوئے جمو وکشمیر بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اشرف بٹ نے کہا کہ بجرنگ دل‘ شیوسینا اور آر ایس ایس کے لئے کوئی قانون نہیں اگر ان سے وابستہ کوئی شخص گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیتا ہے تو بھی وہ عدلیہ اور قانون سے بالا تر ہوتا ہے جبکہ کشمیر میں کوئی بھی اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے تو اسے ریاست مخالف قرار دیکر قید کر لیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر قاسم فکتو اور مسرت عالم کو ہندوستان حکومت نے غیر قانونی طور پر نظر بند کیا ہوا ہے یہ ہندوستان کی تنگ نظری اور سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے اور یہ ہندوستان کی جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔ پروفیسر وویک اور ایڈووکیٹ اندرانی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قاسم اسیری کے دوران بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوئے جیل میں تعلیم و تربیت کے لئے رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ جماعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ بریٹا اوہم نے ہندوستان کے ان ہتھکنڈوں کو صرف حق کی آواز دبانے کی پالیسی قرار دیا۔ سیمینار میں کشمیری نژاد بنگلہ دیشی ماڈل طارق ڈار نے تہاڑ جیل میں بیتائے ہوئے اپنے ایام اسیری کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے مقدمے پر عدلیہ کے معاندانہ رویہ پر روشنی ڈالی۔

متعلقہ عنوان :