تعلیمی اداروں اور میڈیا کو معاشرے کی تعلیم و تربیت کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی

جمعہ 12 جون 2015 22:00

اسلام آباد ۔ 12 جون (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد کسی بھی معاشرے کے مجموعی اذہان کی تربیت کرنا اور انہیں عہد حاضر کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے قابل بنانا ہوتا ہے، یہ فریضہ آج کے دور میں محض سکول، کالج انجام نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا عہد حاضر کا اجتماعی تعلیم و تربیت کا سب سے موثر ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔

اب تعلیمی اداروں اور میڈیا کو معاشرے کی تعلیم و تربیت کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے یونیورسٹی میں جاری ”میڈیا ڈائیلاگ سیریز“ تقریب سے خطاب میں کیا۔نامور صحافی پرویز شوکت کے ”صحافت کی پیشہ ورانہ اخلاقیات“ کے موضوع پر لیکچرمیں جڑواں شہروں کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں، اساتذہ اور ماس کمیونیکیشن کے سکالرز اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شاہد صدیقی نے مہمان مقرر سینئر صحافی پرویز شوکت کی کارکن صحافیوں کے معاشی و سماجی حقوق کے تحفظ اور پیشہ ورانہ اور صحافتی اخلاقیات کی تربیت کیلئے گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے میں انجام دی گئی خدمات پر انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ ذمہ دارانہ اور آزاد صحافت ملک و قوم کی حقیقی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

صحافی ملک کے طول وعرض میں خصوصاً پسماندہ ترین علاقوں میں بسنے والے اہل وطن میں حقوق و فرائض کا شعور بیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مہمان مقرر اور تین بار بھاری اکثریت سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہونے والے نامور صحافی پرویز شوکت جو انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے ایڈوائزر برائے پاکستان بھی ہیں، نے پاکستانی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے صحافیوں کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

انہوں نے صحافت میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کی اہمیت کو اس پیشے کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صحافی بھی ملک کا حصہ ہیں جس طرح کی ہماری اجتماعی سوچ اور اخلاقیات ہوگی اس کا عکس صحافیوں پر بھی دکھائی دینا ایک فطری عمل ہے۔ پرویز شوکت نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان ہی وہ ملک ہے جس میں اب تک 112 صحافی دیانتداری سے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے کی پاداشت میں شہید ہو چکے ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستانی صحافیوں کی قربانیوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو معاشرے کے تمام شعبوں اور طبقات کو ان کے حقوق دلانے میں پیش پیش رہتا ہے لیکن اپنے حقوق کے حصول میں اکثر ناکام رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1995ء سے اب تک صحافیوں کو ان کے حقوق دلانے کیلئے وہ خود (1700) کیس عدالتوں میں دائر کرچکے ہیں۔ یہ بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیت صاف اور ایمان کی قوت پختہ ہو تو صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں دلیری سے انجام دے سکتے ہیں،انہیں دنیا کی کوئی طاقت نیچا نہیں دکھا سکتی۔ اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر بخت رواں نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :