ساڑھے 12 ایکڑ زمین والے کاشتکار کو ٹیوب ویل لگانے کی د میں ایک لاکھ روپے جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ٗ ایف بی آر کو مضبوط کیا جائے ٗتوانائی کے بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے ٗبجٹ بحث پر اظہار خیا ل

مسلم لیگ (ن) کی حکومت میرٹ اور شفافیت کی پالیسی پر گامزن رہے گی ٗچوہدری جعفر اقبال صوبہ خیبرپختونخوا کی صنعتوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ٗ قبائلی علاقوں کو این ایف سی ایوارڈ کا حصہ بنایا جائے ٗآفتاب شیر پاؤ فاٹا سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کیلئے حکومت نے بجٹ میں 21 ارب مختص کئے ہیں ٗعبد القادر بلوچ کی وضاحت

جمعہ 12 جون 2015 18:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) اراکین قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ وزیراعظم یوتھ لون سکیم کو سہل بنایا جائے ٗساڑھے 12 ایکڑ زمین والے کاشتکار کو ٹیوب ویل لگانے کی د میں ایک لاکھ روپے جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ٗبجٹ میں ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ایف بی آر کو مضبوط کیا جائے ٗتوانائی کے بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 2015-16 پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اصغر علی شاہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں حکومت نے اضافہ کیا جس کیلئے ہم شکرگزار ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومتکی طرف سے قرضہ سکیم کو آسان بنایا جائے تاکہ عام، غریب اور مستحق نوجوان اس سکیم سے استفادہ کر سکیں۔

(جاری ہے)

پاکستان سٹیل ملزم کو فعال بنایا جائے اور صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے ر بیروزگاری کا سدباب کیا جائے۔

انہوں نے زرعی شعبہ کی اہمیت پر زور دیتے وہے کہا کہ زرعی اجناس کیلئے حکومت کی طرف سے سپورٹ پرائس کا اعلان تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن جب فصل اترنے والی ہوتی ہے تو زرعی اجناس کی دررآمد کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے کاشتکار ارو زمیندار طبقہ شدید مسائل سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ ہر قسم کے ٹیکس دے رہا ہے۔ ساڑھے 12 ایکڑ زمین والے کاشتکار کو ٹیوب ویل لگانے کی د میں ایک لاکھ روپے جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

چوہدری حامد حمید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ملک کی تاریخ کا بہت اچھا بجٹ دیا ہے اس میں امن عامہ کی بحالی اور ملازمین کیلئے تنخواہوں میں اضافہ سمیت بے شمار اہم اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ حکومت نے نامساعد حالات میں اقتدار سنبھالا، ہمیں ورثے میں لولی لنگڑی معیشت ملی۔ وزیر خزانہ کی شبانہ روز محنت نے ملکی معیشت کو سنبھالا دیا ہے۔

بہت سے ممالک کو ہماری ترقی سے فکر لاحق ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا یوتھ لون پروگرام بڑی محنت اور شفافیت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔ میرٹ پر نوجوان اس سے استفادہ کر رہی ہے، ہم نے شفافیت کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دی ہے۔ دھرنے اور کنٹینر کی سیاست نہ ہوتی تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ایک سال پہلے شروع ہو جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک نے نجکاری کی پالیسی اختار کی اور ترقی کی منازل طے کیں، ہماری حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے کہاکہ گزشتہ سال کے بجٹ کے شرح نمو، آمدن سمیت کئی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے۔ بجٹ میں ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ایف بی آر کو مضبوط کیا جائے۔ بجٹ کے بعد منی بجٹ نہیں آنا چاہیے۔ حکومت کو عوام کا طرز زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ تعلیم کا بجٹ ہر صورت 4 فیصد تک لانا چاہیے اور صوبوں کے ساتھ مل کر مربوط تعلیمی نظام رائج کیا اجئے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کم ہے اسے بڑھا کر کم از کم 20 فیصد کیا جائے۔ ڈائریکٹ ٹیکسوں کو فروغ دیا جائے۔مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ اپوزیشن کو چاہیے کہ بجٹ کی بہتری کیلئے موثر تجاویز دے، صرف تنقید برائے تنقید کی جا رہی ہے۔ انہیں بجٹ پڑھ کر آنا چاہیے تھا۔ ریلوے نے گزشتہ دو سالوں میں بہتری کا جو سفر شروع کیا ہے اس پر کسی نے بات نہیں کی۔

حکومت کے اچھے اقدامات کو کھلے دل سے سراہا جانا چاہیے۔ اپوزیشن اگر اعداد و شمار کے ساتھ بات کر کے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی محمد نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے توانائی کے بحران کے خاتمے سمیت اقتصادی بحالی کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔ ہم نے دو سالوں میں حج کے نظام کو بہتر بنایا۔ انہوں نے زرعی شعبہ کیلئے شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کی سکیم کا ذکر کیا اور کہا کہ پی آئی اے، سٹیل ملز اور واپڈا میں اقربا پروری کی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں۔

ہماری حکومت میرٹ اور شفافیت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آپریشن ضرب عضب ہو یا دہشتگردی سے نمٹنے کا معاملہ اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے معاملے میں ہم نے سیاسی اتفاق رائے کو یقینی بنایا۔ میٹرو پر تنقید کرنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستانی قوم کا پیسہ کس طریقہ سے لگایا گیا اور عالمی معیار کا منصوبہ مکمل کیا گیا ہے۔ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم نے کہاکہ ملک کا تیسرا بجٹ ہے جو لا محالہ نامساعد حالات میں بنایا گیا ہے۔

اپوزیشن بجٹ پر تنقید اور حکومت تعریف کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے سات فیصد تنخواہ میں اضافہ کی صورتحال میں عام آدمی کی اشیائے ضروریہ پر 20 فیصد ٹیکس عائد ہوا تو لوگ کیسے گزارہ کریں گے۔ انہوں نے تعلیم، صحت اور پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پانی کے منصوبے کیلئے ناکافی رقم مختص کی گئی ہے۔ گرین بس منصوبہ کیلئے بھی بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، یہ منصوبہ کیسے ممل ہوگا۔

مردم شماری کرانے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے اس کیلئے بھی رقم بجٹ میں مختص ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ توانائی کے بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے کہاکہ ہمیں بجٹ کے بنیادی نقائص کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ آئین کے تحت این ایف سی کیلئے پانچ سال کی مدت ہے جو جون میں ختم ہو جائے گی، اس کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، بجٹ سازی بھی آئین کے تحت ہونی چاہیے، بجٹ سازی سے قبل قومی اسمبلی کی کمیٹیوں سے مشاورت کی جاتی تو بہتری آ سکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی آبادی کا پتہ نہیں ہے، اندازے کے مطابق بجٹ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ شمالی وزیرستان کی سرکاری دستاویزات میں آبادی 6 لاکھ ہے مگر جب وہاں سے لوگ نکلے تو 10 لاکھ لوگ پنجاب کی طرف آئے اور ایک لاکھ لوگ افغانستان گئے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اکائیوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء قائم ہونی چاہیے۔ صوبوں کو مالی لحاظ سے اتنا مستحکم بنایا جائے تاکہ وہ محرومی کا شکار نہ ہوں اور وہ خود اپنے وسائل سے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔

وسائل کی تقسیم منصفانہ انداز میں ہونی چاہیے۔ اقتصادی راہداری اچھا منصوبہ ہے، صوبوں کے تحفظات دور ہونے چاہئیں۔ بھارت اگر اس منصوبہ کی مخالفت کرے گا تو ہم بھی ڈٹ کر اس کا مقابلہ کریں گے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو آگے لے کر جائیں گے۔ نقل مقانی کرنے والے افراد کا مسئلہ صرف فیڈرل گورنمنٹ کا نہیں ساری قوم کا مسئلہ ہے، اس پر توجہ دی جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ کی صنعتوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور قبائلی علاقوں کو این ایف سی ایوارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ اجلاس کے دور ان ریاستوں و سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے نکتہ وضاحت پر قومی اسمبلی کو بتایا کہ فاٹا سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کیلئے حکومت نے بجٹ میں 21 ارب مختص کئے ہیں جبکہ ان افراد کی مکمل بحالی کیلئے حکومت کی جانب سے 100 ارب روپے کا خصوصی پیکج دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا محمد حیات نے وزیر خزانہ کو عوامی توقعات کے مطابق معیشت کی صورتحال بہتر کرنے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ساری دنیا نے ان کی ان کاوشوں کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 200 ارب روپے موٹر وے پر لگا رہی ہے، یہ رقم زراعت پر لگائے تو آئندہ سال نئی موٹر وے بن سکتی ہے، کھادوں کی قیمتیں کم کی جائیں، زرعی قرضہ 8 فیصد شرح سود پر دیا جائے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں حکومت اچھے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کروٹ کے فیصلہ کے مطابق جن لوگوں نے ملک کا 300 ارب ڈالر لوٹا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اگر قانون اس معاملے میں رکاوٹ بنے تو اس میں ترمیم کی جائے، سوئس بنکوں سے قوم کا لوٹا ہوا 200 ارب واپس آ جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ زراعت کو 200 ارب کی سبسڈی دی جائے تو شرح نمو 6 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔