سندھ ہائی کورٹ ، پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کیس پر فیصلہ محفوظ

جمعہ 12 جون 2015 16:58

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) سندھ ہائی کورٹ نے پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ غیر معینہ مدت تک محفوظ کر لیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سو سو روپے نہیں دس دس روپے جرمانے عائد کریں گے اور یہ سب نوکریوں سے جائیں گے۔سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے آئی جی کو وزیر اعظم کے ساتھ ڈیوٹی پر جانے کی اجازت دی جبکہ پولیس کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے عدالتی امور میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پولیس ملک کی خاطر قربانیاں دے رہی ہے ، صحافیوں پر تشدد کا معاملہ عدالتی حدود سے باہر ہوا ، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے سندھ ہائیکورٹ کے باہر لگا ترازو دیکھا ہے ،ترازو تک سندھ ہائیکورٹ کی حدود ہیں ، آپ کو تو سندھ ہائیکورٹ کی حدود کا ہی نہیں پتا ، کیا آپ تیاری کرکے نہیں آئے ،پولیس کی قربانیوں سے انکار نہیں ، لیکن اس روز توہین عدالت کی گئی ، 23 مئی کو پولیس نے سندھ ہائیکورٹ کو یرغمال بنایا تھا ، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ لوگوں کی نوکری تو گئی ، جسٹس سجاد شاہ نے کہا کہ آپ نے یہ پہلو نہیں دیکھا کہ سندھ ہائی کورٹ کی اپنی سیکیورٹی ہے جس میں سو سے زیادہ اہلکار اور ایک فل ٹائم ڈی ایس پی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے کسی نے اس آپریشن میں حصہ نہیں لیا۔ آپ یہ خود دیکھتے تو یہ دلائل نہ دیتے۔صحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عدالتی کارروائی میں رکاوٹ کے حوالے سے فاروق نائیک کے دلائل سے اتفاق نہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں پولیس والوں کو علامتی سو سو روپے جرمانے کر کے چھوڑا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہم سو سو روپے نہیں دس دس روپے جرمانے عائد کریں گے یہ سب نوکریوں سے جائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ نے پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کیس میں سماعت مکمل کر کے فیصلہ غیر معینہ مدت کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔

متعلقہ عنوان :