آئندہ مالی سال کا بجٹ غریب دوست ہونے کا حکومتی دعویٰ درست نہیں، بجٹ میں ووٹ دینے والوں کو نظرانداز جبکہ نوٹ دینے والوں کو نوازاگیا، پاکستان میں مارشل کے ادوار میں سیٹوسینٹو معاہدوں پر دستخط ہوئے،سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان کے دریا بھارت کے حوالے کئے گئے، ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر اور وزیراعظم نواز شریف نے 1998 میں ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، خیبرپختونخوا حکومت رواں مالی سال کے دوران تعلیم، صحت اور پبلک ہیلتھ کا پچاس فیصد بجٹ استعمال نہیں کر پائی

حکومتی و اپوزیشن رکن قومی اسمبلی عمر ایوب، مزمل حسین قریشی، جاوید علی شاہ، افتخار الدین، پیر بخش جونیجو، صاحبزادہ یعقوب علی، نواب علی وسان و دیگر کا قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 11 جون 2015 16:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 جون۔2015ء) حکومتی و اپوزیشن ممبران قومی اسمبلی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ غریب دوست ہونے کا حکومتی دعویٰ درست نہیں، بجٹ میں ووٹ دینے والوں کو نظرانداز جبکہ نوٹ دینے والوں کو نوازاگیا، پاکستان میں مارشل کے ادوار میں سیٹوسینٹو معاہدوں پر دستخط ہوئے اور سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان کے دریا بھارت کے حوالے کئے گئے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر اور وزیراعظم نواز شریف نے 1998 میں ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، خیبرپختونخوا حکومت رواں مالی سال کے دوران تعلیم، صحت اور پبلک ہیلتھ کا پچاس فیصد بجٹ بھی استعمال نہیں کر پائی۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ 2015-16ء پر بحث کے دوران ایم این ایز عمر ایوب، مزمل حسین قریشی، سید جاوید علی شاہ، افتخار الدین، پیر بخش جونیجو، صاحبزادہ یعقوب علی، نواب علی وسان و دیگر اظہار خیال کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ(ن) کے رکن عمر ایوب نے کہا کہ بجٹ میں 30ہزار سولر ٹیوب ویلوں کیلئے چھوٹے کسانوں کو 11,11لاکھ روپے کے بغیر سود قرضے دینے کا اقدام انتہائی مستحسن ہے، اس کے علاوہ غریبوں کیلئے متعدد مراعات بجٹ میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کے یہاں دھرنے دے کر انارکی پھیلانے کی کوشش کی گئی جس سے چین و دیگر ممالک سے آنے والی سر مایہ کاری متاثر ہوئی، حالانکہ جو لوگ آج ہم پر تنقید کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت رواں مالی سال کے دوران تعلیم، صحت اور پبلک ہیلتھ کا 50فیصد بجٹ بھی خرچ نہیں کر پائی اور وہ اپنا30فیصد بجٹ سرنڈر کر رہے ہیں۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے فیصلے بنی گالہ کے پولٹ بیورو سے ہوتے ہیں، ہم پی ٹی آئی کے یرغمال ممبران کے ساتھ بنی گالہ میں دھرنا دینے کیلئے تیار ہیں تا کہ خیبرپختونخوا حکومت آزاد ہو سکے۔ ایم کیو ایم کے ایم این اے مزمل حسین قریشی نے کہا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ بناتے ہوئے ووٹ دینے والوں کو نظر انداز کیا جبکہ نوٹ دینے والوں کو نوازا ہے۔

رواں مالی سال کے دوران حکومت نے کراچی سے 12کھرب روپے ٹیکس وصول کیا، اس کے برعکس مالی سال 2015-16 کے ترقیاتی بجٹ میں کراچی کے منصوبوں لیاری ایکسپریس وے کیلئے 10کروڑ روپے، گرین لائن بس سروس منصوبے کیلئے 10 کروڑ روپے کے فور واٹر سپلائی منصوبے کیلئے 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو بھی چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت بڑے شہروں کے اندر بڑی بڑی عمارتوں کے اندر لگی ہوئی لفٹ مشینوں کے بجلی کے بلوں میں بھی 35روپے فی وی لائسنس فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ لفٹ کون سا ٹی وی دیکھتی ہے۔ وفاقی حکومت کراچی کی محرومی دور کرنے کیلئے بجٹ میں 5 ارب روپے آر او پلانٹس کیلئے مختص کرے۔(ن) لیگ کے سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ 28 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی کے دروازوں پر پہرہ لگا دیا تا کہ اس ملک میں پہلا آئین نافذ العمل نہ ہو سکے جبکہ اس طرز عمل کے نتیجے میں 1958ء میں پاکستان کے اندر پہلا مارشل لاء لگا، لوگ یہاں مثالیں دیتے ہیں کہ مارشل لاء کے دور میں بڑی بڑی سڑکیں بنتی ہیں، ترقی ہوتی ہے، ہم مانتے ہیں ایک جانب سڑکیں اور ڈیم بن رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب سیٹو سینٹو اور سندھ طاس جیسے معاہدے ہوئے جن کے نتیجے میں ہمارے دریا بھارت کے پاس چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اگر کھاد، بیج، زرعی مشینری و زرعی ادویات پر ٹیکس مکمل طور پر معاف کیا جائے تو زراعت کو بہت فائدہ ہو گا۔ موجودہ حکومت کی جانب سے فی کس آمدنی میں اضافہ، انٹرن شپ سکیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 40 ارب روپے سے بڑھا کر 102ارب روپے کرنا اہم کارنامے ہیں۔ رکن اسمبلی افتخار الدین نے کہا کہ لواری ٹنل منصوبے کیلئے بجٹ میں کم فنڈز مختص کئے گئے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو یہ آٹھ دس سال میں مکمل ہو گا۔ حالانکہ لواری ٹنل منصوبہ نامکمل ہونے کی وجہ سے ضلع چترال کے لوگوں کو موسم سرما میں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب یہ سرنگ مہینہ مہینہ بند رہتی ہے۔