سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کا ازالے،سپریم کورٹ نے مانیٹرنگ نظام وضع کرنے کا حکم دیدیا

حکومت کو کیری لوگر بل کی رقم ، سعودی عرب کی نوازشات ، پاک چائنہ راہداری کے اربوں ڈالر یاد ہیں سالانہ 17 ارب ڈالر بھجوانے والوں کو کوئی یاد نہیں کرتا،جسٹس جواد سپریم کورٹ سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کا نوٹس نہ لیتی تو ان کا اللہ ہی حافظ تھا ، قیمتی اراضی اور کاروبار پر قبضہ کیا جا رہا ہے ،یہ ہمارا کام نہیں ہے ۔ جو کرنا پڑ رہا ہے لوگ مر رہے ہیں حکومت کی بے حسی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ،افسران بیرون ملک پوسٹنگ کروا کر حکومتی لوگوں کی پروٹوکول کی ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں،سماعت میں ریمارکس

بدھ 10 جون 2015 17:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 جون۔2015ء) سپریم کورٹ نے سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کے ازالے کے لئے مانیٹرنگ پر مشتمل نظام سات روز میں وضع کرنے اور عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔ سینیئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت کو کیری لوگر بل کے ذریعے کشکول میں دی گئی رقم ، سعودیہ کی نوازشات اور اب پاک چائنہ راہداری کے اربوں ڈالرز تو یاد ہیں مگر سالانہ 17 ارب ڈالرز بھجوانے والے پاکستانیوں کو کوئی یاد نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے مسائل حل کئے جاتے ہیں جو بغیر کشکول پھیلائے ہمیں اتنی بڑی رقم دے رہے ہیں ۔

71 فیصد افسران بیرون ملک پوسٹنگ کروا کر غیر ملکی شہریت حاصل کرتے ہیں اور بعدازاں ساری زندگی بیرون ملک رہتے ہوئے حکومتی لوگوں کی پروٹوکول کی ڈیوٹی دیتے گزار دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ اگر سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کا نوٹس نہ لیتی تو ان کا اللہ ہی حافظ تھا ۔ سمندر پار پاکستانیوں کی پاکستان میں موجود قیمتی اراضی اور کاروبار پر قبضہ کیا جا رہا ہے دکھ اس بات کا ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے ۔

جو کرنا پڑ رہا ہے اگر ہم مداخلت نہ کریں تو اداروں کے درمیان رابطے کانظام نہ ہونے کی وجہ سے مسائل اور بھی بڑھ جائیں لوگ مر رہے ہیں حکومت اور حکام کی بے حسی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے حکومت اور حکام کے دل کی جگہ پتھر پڑے ہوئے ہیں انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی اس دوران سول ایوی ایشن کی اتھارٹی اے ایس ایف ، کسٹم حکام سمیت دیگر اداروں کے نمائندے پیش ہوئے ۔

عدالت نے بغیر ضرورت افسران کے عدالت میں پیش ہونے پر پابندی لگا دی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ مبارک ہو 5 سال بعد عدالت کی ہدایات پر کچھ عمل ہو گیا ہے کتنا عمل ہوا ہے وہ بتایا جائے جس پر اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے کہاکہ ون ونڈو آپریشن کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے ایف آئی اے کے حوالے سے لاہور میں شکایات ہیں مگر اسلام آباد میں حالات نسبتاً بہتر ہیں ۔

ون ونڈر آپریشن سے معاملات حل ہو رہے ہیں ۔تشہیر بھی کی جا رہی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ 80 لاکھ تارکین وطن تک رسائی ہونی چاہئے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے تر ہدایات اور معاملات اردو زبان میں کیا گیا ہے ایس ایم ایس نظام کے تحت شکایات کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے سافٹ ویئر متعارف کرایا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ 71 فیصد افسران بیرون ملک پوسٹنگ حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ بیرون ملک شہریت حاصل کر سکیں اور بعدازاں یہ افسران حکومتی لوگوں کو پروٹووکول دیتے پھرتے ہیں ۔

ایک کو تو میں نے جھاڑا بھی تھا ۔ کویت متاثرین کے حوالے سے احکامات بھی جاری کئے تھے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سارا مدعا اے ایس ایف پر ڈالا جا رہا تھا ۔ ایف آئی اے ، کسٹم وغیرہ ان کا ذمہ دار نہیں ہے ۔ ایک ادارہ دوسرے ادارے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے اور پھر ہمیں جس کی یہ ذمہ داری بھی نہیں ہے اس کو یہ کام کرنا پڑتا ہے ۔سی اے اے کے وکیل نے بتایا کہ دو سال قبل ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کے سربراہان کی میٹنگ ہوئی تھی وفاقی محتسب نے میٹنگ کی تھی اور ون ونڈر آپریشن کا افتتاح بھی کیا تھا ۔

کنزیومر پروٹیکشن مینوئل بنا دیا گیا ہے ۔ 26 شکایات موصول ہوئی تھی جس میں 17 نمٹا دی گئی باقی رہ گئی ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ 80 لاکھ تارکین وطن کی 26 شکایات فی منٹ آئی ہو گی 35 دنوں میں اتنی کم شکایات نہیں ہو سکتی ۔ مانیٹرنگ اورویلوایشنسسٹم دیں لوگوں کی معلومات کے لئے خوب تشہیر کی جائے ۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ ریڈیو اور ٹی وی پر انٹرویوز نشر کئے جا رہے ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کسی ریڈیو ٹی وی پر 15 منٹ کا پیغام آتا ہے کہ یہ تارکین وطن کے لئے ون ونڈر آپریشن شروع ہے ایسا کوئی اشتہار نظر نہیں آیا ۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے کہا کہ 80 ہزار تارکین وطن ہیں 5 سال سے یہ ہو رہا ہے کہ ان کی مشکلات کم نہیں ہو رہی ہیں ان کی شکایات کا ازالہ چاہتے ہیں ہر سال 16 سے 18 ارب ڈالرز بجھوانے والوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے ۔

15 ادارے ہیں وہ کس طرح سے کام کریں ۔ سیکرٹری نے کہا کہ ان کا کوئی نہ کوئی فریم ورک بھی ہو گا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رضا ربانی نے بیان دیا تھا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان نے وفاقی محتسب سمندر پار پاکستانیوں کے لئے بنایا گیا ہے سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے کمشنرز کو بریفنگ دینا تھی جسٹس جواد نے کہا کہ چیئرمین سینٹ نے نوٹس لیا تھا ۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے وکیل نے بتایا کہ وہ ویب سائٹ بنانا چا رہے ہیں تھے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کویہ کام کرنا ہوگا ۔ 15 اداروں کو مرکزی سطح پر لانا ہو گا تارکین وطن کو واضح پیغام ملنا چاہئے وہ ان اداروں سے الجھ کر رہ جاتے ہیں وکیل نے بتایا کہ وفاقی محتسب نے تمام اداروں کو اکٹھا کیا ہے سوال ایوی ایشن اتھارٹی کی ویب سائٹ سے بھی مدد لی جا رہی ہے ۔

7 روز میں وفاقی محتسب رپورٹس مانگ رہے ہیں ان میں ایف بی آر ، ایف آئی اے ، سی اے اے ، اوورسیز فاؤنڈیشن ، وزارت سمندر پار پاکستانیز شامل ہیں ۔ تمام سفارت خانوں کے فوکل پرسنز کو بھی شامل کیا گیا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ یہ مسئلہ نہیں ہے مانیٹرنگ اور ویلوایشن فریم ورک ہونا چاہئے ۔ سول ایوی ایشن کے حکام نے بیان دیا مگر چیک کیا گیا تو وہ غلط ثابت ہوا ۔

کوئی مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں ہے ایک ادارے کا سربراہ کچھ کہہ رہا ہے مگر سول ایوی ایشن کی ویب سائٹ پر وہ چیز نہیں ملتی یہ سپریم کورٹ سے مذاق کیا جا رہا ہے لوگوں کو جائیدادیں لٹ گئی ہیں روزانہ خطوط ملتے ہیں گوجرانوالہ کے شہری نے خط میں لکھا کہ ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا گیا ہے سی اے اے کے وکیل نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرلز کی ریگولیز میٹنگ ہو رہی ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ آئے روز چار گھنٹے لگاتے رہیں صرف متعلقہ حکام آئیں ۔ 10 روز کے لئے اس کو ملتوی کر رہے ہیں اس کا شفاف آئیڈیا دیا جائے کہ ان 15 اداروں سے سمندر پار پاکستانیوں کو کس حل تک مد مل سکتی ہے لاء اینڈ جسٹس سیکرٹری سے کہا کہ پہلے اوقاف کے حوالے سے بھی آپ کی ذمہ داری لگائی تھی اب اس کی لگا رہے ہیں اس بات کا رنج اور ملال ہے کہ یہ کام ہمارے کرنے کا نہیں ہے لوگ مر رہے ہیں اگر ہم مداخلت نہ کریں تو پھر ان پاکستانیوں کا اللہ ہی حافظ ہے بے حسی انتہا کی ہے دل کی بجائے افسران کے پتھر پڑے ہوئے ہیں کیری لوگ بل امریکہ نے کچھ ڈالر دے دیئے ۔

کچھ نوازشات سعودیہ نے کر دی اس کا ذکر کرتے ہوئے حکومت نہیں تھکتی ۔ مگر سمندر پار پاکستانیوں کے 17 ارب ڈالر سالانہ کا کوئی ذکر نہیں ۔ عدالت نے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سے کہا کہ وہ ایئرپورٹ پر کام کرنے والے ایف آئی اے سمیت پندرہ اداروں کا ایک ایسا پروفول مانیٹرنگ نظام وضع کریں کہ جس سے تارکین وطن کی پریشانیاں ختم ہو جائیں سات روز میں اس ہدایت پر عمل کیا جائے اور 22 جون تک عدالت میں جواب پیش کیا جائے ۔ عدالت نے تمام اداروں کو ہدایت کی ہے کہ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سے تعاون کیا جائے ۔