اسلام آباد ہائی کورٹ نے سر کا ری افسرو ں کی ترقیو ں با رے سی ایس بی اجلاس کی منٹس سربمہر لفافے میں طلب کرلیں

کیا عدالت وزیراعظم کی منظوری کے بعد ترقیوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، عدا لتی استفسا ر

بدھ 10 جون 2015 17:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 جون۔2015ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک سینئر بیورو کریٹ کی جانب سے گریڈ 19،20اور 21 میں ترقیوں کے حوالے سے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات پر دائر درخواستوں پر سی ایس بی اجلاس کی منٹس سربمہر لفافے میں طلب کرلیں ہیں ۔ بدھ کے روز جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بینچ نے ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس آفتاب احمد چیمہ ، ایف سی کمانڈنٹ غنی الرحمان اور ڈائریکٹر آئی ایس آئی عبدالصمد سمیت دیگر افسران کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی درخواست گزار کی جانب سے عبدالرحمان صدیقی ایڈووکیٹ جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل افنان کریم کنڈی عدالت میں پیش ہوئے ۔

عبدالرحمان صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کس طریقہ کار کے تحت افسران کو ترقیاں دی گئی ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ میرے موکلین ان تمام معیارات پر پورا اترتے ہیں جس کے تحت انہیں ترقیاں دینی چاہیں تھیں لیکن اس کے باوجود میرے موکلین سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود بھی ترقی نہیں دی گئی اس دوران انہوں نے سپریم کورٹ کے اوریا مقبول جان عباسی اور عمر فاروق کیسوں کا حوالہ بھی دیا افنان کریم کنڈی نے کہا کہ وزیراعظم سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات پر منظوری دے چکے ہیں یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ کس کی منظوری دیں کیونکہ منظوری کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہی ہوتا ہے عدالت نے اس دوران سوال اٹھایا کہ کیا عدالت وزیراعظم کی منظوری کے بعد ترقیوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اس پر افنان کریم کنڈی نے کہا کہ عدالت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے انہوں نے کہا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ اپنے دائرہ کار اور اختیارات کے اندر رہ کر سفارشات وزیراعظم کو بھجواتا ہے اس میں ادارے کی اپنی کوئی پسند نہ پسند یا منشاء شامل نہیں ہوتی عدالت نے وفاق سے سینٹرل سلیکشن بورڈ اجلاس کے منٹس سربمہر لفافے میں طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت اٹھارہ جون تک ملتوی کردی واضح رہے کہ چالیس سے زائد بیورو کریٹس و افسران نے گریڈ انیس ، بیس اور اکیس میں ترقیوں کیخلاف درخواستیں دائر کرکھی ہیں۔

متعلقہ عنوان :