سانحہ شاد باغ ،ریسکیو ٹیموں کے رسپانس ٹائم اور کارکردگی کے حوالے سے انکوائری مکمل کر کے رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کر دی گئی

ریسکیو 1122فاصلے کے مطابق مقررہ وقت پرپہنچ جاتی تو بالائی منزل پر موجود تین بچیوں کو بچائے جانے کی امید کی جا سکتی تھی‘ نجی ٹی وی رپورٹ میں فائربریگیڈ کی گاڑیوں کی کارکردگی ،آلات کی عدم موجودگی ،عملے کی مناسب تربیت نہ ہونے اور ریسکیو ٹیموں کی کوارڈی نیشن بارے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں

ہفتہ 30 مئی 2015 21:43

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 مئی۔2015ء) سانحہ شاد باغ کی تحقیقات کیلئے بنائی جانے والی ٹیم نے حادثے کے بعد ریسکیو ٹیموں کے رسپانس ٹائم اور کارکردگی کے حوالے سے انکوائری مکمل کر کے رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ریسکیو 1122کی ٹیم فاصلے کے مطابق مقررہ وقت پرجائے حادثہ پر پہنچ جاتی تو بالائی منزل پر موجود تین بچیوں کو بچائے جانے کی امید کی جا سکتی تھی ، رپورٹ میں ضلعی انتظامیہ کی فائربریگیڈ کی گاڑیوں کی کارکردگی ،آلات کی عدم موجودگی اور عملے کی مناسب تربیت بارے بھی سوال اٹھاتے ہوئے آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق شاد باغ میں آتشزدگی سے ایک ہی خاندان کے چھ بچوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر بنائی جانے والی تحقیقاتی ٹیم نے ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر اٹھائے جانے والے سوالات پر انکوائری کر کے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کر دی ہے ۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں ریسکیو سے متعلقہ اداروں کے ذمہ داران ، متاثرہ خاندان اور اہل علاقہ کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ریسکیو 1122اپنے رسپانس ٹائم اورمقررہ فاصلے کے مطابق آٹھ منٹ کی تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچی اور اگر ریسکیو ٹیمیں بروقت پہنچ جاتیں تو بالائی منزل پر موجود تین بچیوں کو بچائے جانے کی امید پیدا ہو سکتی تھی ۔ بتایا گیا ہے کی ریسکیو 1122 کو 1:35پر حادثے کی اطلاع دی گئی لیکن وہ 1:51پر پہنچی ۔ ضلعی حکومت کی فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکی جسکے بعد اہل علاقہ فائر بریگیڈ کے دفتر پہنچے اور گاڑی کو سٹارٹ نہ ہونے پر دھکا لگا نا پڑا ۔

جائے حادثہ پر پہنچنے کے بعد عملے کے پاس آلات بھی نہیں تھے جبکہ عملے کی بھی مناسب تربیت نہ تھی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حادثے کے بعد پولیس کا رد عمل بھی قابل تعریف نہیں تھا جبکہ ریسکیو ٹیموں کے درمیان کوارڈی نیشن کے فقدان بارے بھی سوال اٹھایا گیا ہے ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے کمشنر لاہو رڈویژن کی سربراہی میں ریسکیو سیل بنایا جائے جس میں تمام ریسکیو اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا جائے ۔

رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے اسے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوا دیا ہے اور ہدایات کی گئی ہے کہ وہ تمام اضلاع کے ڈی سی اوز کو پابند کریں کہ اس طرح کے کسی بھی واقعہ سے بچنے کیلئے فائربریگیڈ کی کارکردگی کو بہتر اور عملے کو مہارت دلائی جائے ۔

متعلقہ عنوان :