بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی خواہش نے مغری کی پڑھی لکھی خواتین کو داعش میں شمولیت پر مجبور کردیا

متعدد لڑکیاں پڑھی لکھی، ڈاکٹرز اور انجنئیرز بھی ہیں، پرآسائش زندگی چھوڑ کر داعش میں شامل ہوگئیں ، رپورٹ

جمعرات 28 مئی 2015 19:01

بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی خواہش نے مغری کی پڑھی لکھی خواتین کو داعش ..

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28 مئی۔2015ء) اب تک مغربی دنیا سے سینکڑوں نوجوان لڑکیاں داعش میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں۔ ان میں سے متعدد لڑکیاں پڑھی لکھی، ڈاکٹرز اور انجنئیرز بھی ہیں۔ آخر یہ لڑکیاں مغرب کی پْر آسائش اور آزاد زندگی کو کیوں چھوڑ رہی ہیں؟ غیر ملکی خبررساں ادار ے نے اپنے ایک جائزے میں انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک ڈائیلاگ اور کِنگز کالج لندن کی ایک نئی تحقیقی رپورٹ کی تفصیلات شائع کی ہیں۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر ان وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، جن کی وجہ سے مغربی لڑکیاں جہادی تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں۔اس تحقیق کے مطابق ایسی بہت سے وجوہات ہیں، جو ان لڑکیوں کو شام اور عراق جانے کی طرف مائل کر رہی ہیں لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ان لڑکیوں کے مطابق پوری دنیا میں مسلمانوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسرا ان لڑکیوں میں مل جل کر، بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ رپورٹ ایرین سیلٹمین اور میلینی سمتھ نے تیار کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر مغربی دنیا مزید لڑکیوں کو داعش میں شمولیت سے روکنا چاہتی ہے تو اسے ان وجوہات کو سنجیدگی سے لینا ہو گا، ورنہ جو خواتین شام اور عراق جا رہی ہیں، وہ واپس لوٹ کر مغربی معاشروں میں بھی دہشت گردانہ کارروائیاں کر سکتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق مغرب میں انہیں سادگی کے ساتھ صرف ’جہادی دلہنیں‘ قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان لڑکیوں کا برین واش ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ کہ یہ سوچ اصل مسائل سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔

میلینی سمتھ کہتی ہیں، ”ان لڑکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا اور سبھی کو ایک ہی برش سے پینٹ کر دینا یا سب پر ایک ہی لیبل لگا دینا انتہائی خطرناک رجحان ہے۔“محقیقین کے مطابق ان لڑکیوں کو ’جہادی دلہنیں‘ قرار دینا میڈیا کے لیے تو پرکشش لفظ ہے لیکن شام اور عراق جانے والی لڑکیوں کے مقاصد اس سے کہیں بڑے ہیں۔ وہاں جانے والی لڑکیوں کا مقصد اس پورے خطّے کو ایک مثالی اسلامی خطّہ بنانا ہے۔

ان میں سے بہت سی لڑکیاں اگلے محاذوں پر مردوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن اسلامی تشریحات کی وجہ سے وہ دیگر امور تک محدود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اچھی بیوی اور بہتر ماں بننے کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ یہ خواتین سوشل میڈیا پر داعش کے پروپیگنڈا میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

متعلقہ عنوان :