گورنر سٹیٹ بینک کے ایس بی بینک کو اسلامی بینک میں ضم کرنے کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کومطمئن نہ کرسکے

جنگل کا قانون رائج ہے ، سٹیٹ بینک نے اشتہار دیئے بغیر کیسے فیصلہ دیا ، من پسند پارٹی کو نوازا گیا ، سینیٹر کامل آغا پاک چین دوطرفہ تجارت کاحجم ہماری حکومت 11 ارب ڈالر،چینی حکومت 7 ارب روپے بتاتی ہے ، تضاد کیوں ہے ؟ ، چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ سلیم مانڈوی والا

بدھ 27 مئی 2015 21:07

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27 مئی۔2015ء ) گورنراسٹیٹ بینک اشرف محمودوتھراکے ایس بی بینک کے بینک اسلامی میں ضم کرنے کے معاملے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو مطمئن نہ کرسکے اوراراکین کمیٹی کے تابڑتوڑسوالوں پر لاجواب ہوگئے،سنیٹرکامل علی آغانے کہا کہ مغل اعظم کے دور میں بھی ایسا کام نہیں کیا گیا ہوگا سرکاری اداروں کوملکی قوانین کو مد نظررکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں مگریہاں جنگل کا قانون رائج ہے، اسٹیٹ بینک کو کے ایس بی بینک کے انضمام کی پالیسی بنا کراخبارا میں تشہیر کرنی چاہیے تھی ،اسٹیٹ بینک نے پورابینک صرف ایک ہزارروپے میں من پسندپارٹی کوعطاکردیا،قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں کے ایس بی بینک کے بینک اسلامی میں زبردستی انضمام بارے اسٹیٹ بینک ودیگرامتعلقہ اداروں سے مکمل ریکارڈطلب کرلیا، چیئرمین قائمہ کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ پاک چین دوطرفہ تجارت کاحجم ہماری حکومت 11 ارب ڈالرجبکہ چینی حکومت 7 ارب روپے بتاتی ہے اسمیں بڑا فرق کیوں آرہا ہے، کراچی میں ایک منی چینجر کمپنی ( ایم سی جی )عوام سے بہت بڑی رقم لوٹ کر فرار ہو چکی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

(جاری ہے)

بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئر مین سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والاکی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جسمیں گورنراسٹیٹ بینک اشرف محمودوتھرانے قائمہ کمیٹی کوکے ارکان کوکے ایس بی بینک کے بینک اسلامی میں انضمام کے حوالے سے بتایا کہ یہ کوئی غیر معمولی کیس نہیں ہے پوری دنیا میں بینکوں کے خراب مالی حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بینک کو دوسرے بینکوں میں ضم کرنے کے واقعات ہوتے ہیں، پاکستان میں 10 سال پہلے الائیڈ بینک ، انڈس بینک اور مہران بینک بھی سرمائے کی کمی کا شکا ر ہوئے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ 2008-09 میں پاکستان میں قائم 6 بینکوں کی مالی حالت بہت خراب ہو چکی تھی جن میں کے ایس بی بینک بھی شامل تھا ۔حکومت نے اُس وقت ان بینکوں کو75 ارب روپے کاسرمایہ عارضی طورپرفراہم کیاجس کے نتیجے میں ان میں سمٹ بینک ، سلک بینک اور پنجاب بینک کے مالی حالات بہترہوئے مگرکے ایس بی بینک نے جتنے وعدے کیے تھے ان میں ایک پرپر عملدرآمد نہیں کیا ا۔

بالآخری نومبر2013مینکے ایس بی بینک کے مستقبل کافیصلہ کرنے کیلئے ریگولیٹری میٹنگ منعقدکی گئی جسمیں انہیں آخری وارنن گ دی گائی مگراس کے باوجودکے ایس بی بینک کی منیجمنٹ اپنے وعدوں کوعملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی۔ نتیجتاًمرکزی بینک کوکے ایس بی بینک کو کسی دوسرے بینک میں ضم کرنے کافیصلہ کراناپڑا، اس حوالے سے چار بینکو(عسکری بینک، سندھ بین، جے ایس بینک اوربینک اسلامی)نے مذکورہ بینک میں دلچسپی ظاہرکی کیونکہ کے سی بی بینک کے اکاؤنٹ میں ایک ایرانی کمپنی کا20ارب روپے کے قریب سرمایہ جمع ہونے کی وجہ سے زیادہ تربڑے بینکوں نیاسمیں دلچسپی ہی ظاہرنہیں کی،یوں اسٹیٹ بینک نے بینک اسلامی کوترجیح دیتے ہوئے کے ایس بی بینک کااسمیں انضمام کردیا۔

مگراُس وقت کے ایس بی بینک کے مالکان نے اچانک عدالت سے رجوع کیا اور جب دیکھا کہ ان کا کیس مضبوط نہیں تو درخواست واپس لے لی اور بعدمیں حکم امتناعی حاصل کر لیا ۔ جس پرسینیٹرمحمدعلی سیف نے کہا کہعدالتی فیصلے کی نقل قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائے،یہ بات مشکوک ہے کہ کے ایس بی بینک کی انتظامیہ نے ازخوداپنی درخواست کیوں واپس لی ، جبکہ سینیٹر اسلام الدین شیخ نے اس معاملے پر ایک تحریری سوالنامہ پیش کیا،قائمہ کمیٹی نے جس کے جوابات اسٹیٹ بینک سے آئندہ اجلاس میں طلب کر لیے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ جس قاعدے و قانون کے تحتکے ایس بی بینک کو دوسرے بینک میں ضم کیا گیا وہ قائمہ کمیٹی کے سامنے لائے جائیں، اسٹیٹ بینک نے کس اختیار کے تحت یہ انضمام کیا ،نہ ہی کوئی اخبار اشتہار دیا گیابلکہ اپنی مرضی کی پارٹی کو نواز ا گیا ہے ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم نے قانون کی شق 47 کے تحت یہ سارا کام کیا ہے۔ جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ انضمام کے معاملے میں قواعدکی شق نمبر 47 کے علاوہ شق نمبر48 پر بھی عمل کرنا ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مغل اعظم کے دور میں بھی ایسا کام نہیں کیا گیا ہوگا ،اداروں کوملکی قوانین کو مد نظررکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوتے ہیں جنگل کا قانون بنایا گیا ہے، اسٹیٹ بینک کو پالیسی بنا کر اس کی تشہیر کرنی چاہیے تھی۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کے ایس بی بینک کے اثاثوں کی پوری تفصیل کمیٹی کو فراہم کرنے کامطالبہ کیا ،اُس وقت بینک میں کتنا پیسہ تھا کیا اس کا سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے پچھلے پانچ سالوں کی آڈٹ رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے ۔

جس پر اسٹیٹ بنک کے حکام نے کہا کہ تمام بینکوں کا آڈٹ کرایا جاتا ہے اور بتایا گیا تھا کہ یہ بینک مسلسل نقصان میں جارہا ہے، 12.5 ارب روپے کا نقصا ن ہو چکا تھا اور کیپٹل منفی 4 فیصد پر پہنچ چکا تھا۔ چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والانے کہا کہ اس معاملے کی تمام تفصیلات پہلے دن سے لے کر آج تککمیٹی کو فراہم کی جائیں اس مسئلے کو آئندہ اجلاس میں تمام متعلقہ اداروں کو بلا کر حل کیا جائے گا۔

پاک چین اپریل2015 کے معاہدے میں اسٹیٹ بینک کے کردار کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ معاہدہ 2011 میں ہوا تھا جو 2014 میں ختم ہو چکا تھا اور دوبارہ اس کی تجدیدکی گئی تاکہ باہمی تجارت کو فروغ دیا جاسکے ۔کسی بھی ملک کے سنٹرل بنک کو فارن ایکسچنج کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دوسرے ملک کے سنٹرل بینک سے مد د حاصل کر سکتا ہے ہم نے دو دفعہ بنکوں کو دعوت دی تھی کہ رقم کے حصول کیلئے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں مگر کوئی ہمارے پاس نہیں آیا ۔

اسپرسینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ صرف وہی لوگ دلچسپی لیں گے جو چین کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں ۔کرنسی سویپ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ چین نے بہت سے ممالک کے ساتھ کرنسی سویپ کے معاہدے کر رکھے ہیں وہ کرنسی کی ویلیو کو مستحکم رکھتے ہوئے اپنی تجارت کو بڑھنا چاہتے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پا ک چین باہمی تجارت کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہ 11 ارب ڈالر کی ہے جبکہ چینی حکومت 7 ارب ڈالر بتاتی ہے اتنا بڑا فرق کیوں آرہا ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایسے اعدادوشمار پچھلے تین چار سالوں سے سامنے آرہے ہیں۔

سینیٹر طلحہ محمود نے سوال اٹھایا کہ بیرون ملک جاتے ہوئے کوئی پاکستانی شہری کتنے ڈالرساتھ لے جاسکتا ہے تو کمیٹی کو بتایا گیا کہ دس ہزار ڈالر لے جاسکتے ہیں جبکہ بیرون ملک سے پیسے لانے کی کوئی حد مقر ر نہیں صرف اس کا ڈکلریشن فام پر کیا جاتا ہے ۔منی چینجرز کے لائسنس کے اجراکے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1991 میں 370 منی چینجزز کو اجازت دی گئی تھی جو 2004 میں 26 بڑی اور 27 چھوٹی کیٹگری کی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے ہیں اور اب صرف یہ ہی کام کر رہی ہیں غیر قانونی منی چینجزز کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کر تی ہے اور ہمیں ایف آئی اے کسی کمپنی کے بارے میں اطلاع دے کہ غیر قانونی کام کررہے ہیں تو ہم لائسنس منسوخ کر دیتے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے ۔

جسپرچیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ کراچی میں ایک کمپنی عوام سے بہت ساری رقم لوٹ کر فرار ہو چکی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔سینیٹر سعید غنی نے چیئرمین کمیٹی سے ایم سی جی کے مسئلے کو آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی سفارش کی ۔

متعلقہ عنوان :