پانی کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں صنعت و تجارت اور زرعی شعبے کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے‘ کالاباغ ڈیم سے صرف پنجاب نہیں بلکہ سارے ملک کو فائدہ ہوگا

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر اعجاز اے ممتاز کا بیان

منگل 26 مئی 2015 22:31

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 مئی۔2015ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر اعجاز اے ممتاز نے کہا ہے کہ اگر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے آج اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں صنعت و تجارت اور زرعی شعبے کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے، کالاباغ ڈیم سے صرف پنجاب نہیں بلکہ سارے ملک کو فائدہ ہوگا لہذا سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات ہائے فکر کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

صنعتکاروں کے ایک وفد سے ملاقات میں لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ پاکستان میں پانی اور توانائی کی قلت کے مسائل نے بہت پیچیدہ صورت اختیار کرلی ہے ، کالاباغ ڈیم تعمیر کرکے ان دونوں مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1960ء میں ورلڈ بینک کالاباغ اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کی سفارش کرچکا ہے لہذا اس پر اعتراضات کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اس سے صرف پنجاب نہیں بلکہ سارا ملک مستفید ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے دراصل پاکستانی قوم کے مفادات کی مخالفت کررہے ہیں، کالاباغ ڈیم نہ بننے دینا آئندہ نسلوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی مدد سے صوبہ سرحد کی آٹھ لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے سو ڈیڑھ سو فٹ بلند ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین اُسی صرف میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے جس پر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف چار سو روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کے مطابق گذشتہ پچھتر سالوں کے دوران دریائے سندھ میں اوسط پانی 146ملین ایکڑ رہا ہے جبکہ سالانہ اوسطاً 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ یہ پانی ذخیرہ کرکے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم پر تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ ریفرنڈم کے ذریعے کیا جاسکتا ہے کیونکہ سیاسی طور پر یہ اس قدر متنازعہ کردیا گیا ہے کہ اس کی تعمیر پر اتفاق رائے ممکن نہیں۔ اعجاز اے ممتاز نے کہا کہ جب تک ہم اپنے آبی وسائل سے خود فائدہ نہیں اٹھائیں گے تب تک ہم دوسروں سے اپنا حق نہیں مانگ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران خیبرپختونخوا اور سندھ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اْس سے اْن لوگوں کو سبق سیکھ لینا چاہیے جو کالاباغ ڈیم کی مخالفت کررہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :