پاکستان کوکئی مسائل کا سامنا ہے، ان سے عوامی قوت کے ساتھ نمٹنا ہو گا ، دہشت گردی فرقہ واریت پر بڑھتے رحجان کو کم کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز کا آپریشن نہایت اہم ہے، پوری قوم اور ادارے ایک پیج پرہونے سے دہشتگردوں سے بہتر طریقے سے نمٹا جاسکتاہے ،چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ اور مراعات کوئی سٹیٹ سیکرٹ نہیں عوام کو رسائی ہونی چاہیے، آرٹیکل 6 پارلیمان اور سسٹم کی ضمانت نہیں دے سکتا ،سسٹم اور آئین کو بچانا ہے تو سیف گارڈ عوام کو بنانا ہو گا ، مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی علامت ہیں

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز اور پارلیمنٹری رپورٹر ایسوسی ایشن کے تعاون سے منعقدہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب

منگل 26 مئی 2015 21:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 مئی۔2015ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو کئی اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہے، عوامی قوت کے ساتھ نمٹنا ہو گا،جس پیمانے پر یہ مسائل ہیں کوئی ادارہ، فرد یا جماعت اکیلے نہیں نمٹ سکتی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کے بڑھتے رحجان کو کم کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز کا آپریشن نہایت اہم ہے، کلی طور پر اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے جب پوری قوم اور ادارے ایک پیج پر ہوں،چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ اور مراعات کوئی اسٹیٹ سیکریٹ نہیں ہے، عوام کو رسائی ہونی چاہیے، آرٹیکل 6 پارلیمان اور سسٹم کی ضمانت نہیں دے سکتا، آئین و پارلیمان کا تحفظ کرنے میں بھی آئین اور پارلیمان کا تحفظ صرف عوام کر سکتی ہے، عوام اسی وقت تحفظ کیلئے اٹھے گی جب اسے محسوس ہو گا کہ اونر شپ اس کے پاس ہے،سسٹم اور آئین کو بچانا ہے تو سیف گارڈ عوام کو بنانا ہو گا، ماضی میں جس نے صوبوں کو حقوق دینے کی بات کی اسے غدار قرار دیا گیا، بیرونی ممالک کا ایجنٹ اور وفاق کو توڑنے والا قرار دیا گیا مگر1947ء سے آج تک مضبوط مرکز کا تجربہ کرتے رہے جو ناکام ہے، مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی علامت ہیں۔

(جاری ہے)

منگل کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز اور پارلیمنٹری رپورٹر ایسوسی ایشن کے تعاون سے ہونے والی ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اگر پارلیمان کی بروقت رپورٹنگ نہ ہو پائے تو پارلیمان بے مقصد ہو جاتے ہیں، پاکستان کو اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل سے عوامی قوت کے ساتھ نمٹا جا سکتا ہے من حیث القوم جدوجہد کرنا ہو گی، جس پیمانے پر یہ مسائل ہیں کوئی ادارہ، فرد یا جماعت اکیلے نہیں نمٹ سکتا، دہشت گردی فرقہ واریت پر بڑھتا ہوا رحجان، اس کو کم کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز کا آپریشن نہایت اہم ہے، کلی طور پر اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے جب پوری قوم اور ادارے ایک پیج پر ہوں، اس کیلئے لمبی جدوجہد درکار ہے، سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں، جس طرح برطانیہ نے نازی افواج کے حملوں کے فوری بعد زندگی معمول پر آ جاتی تھی، اسی طرح بڑے سے بڑے دہشت گردی کے واقعات سے بھی پاکستان نے بڑے عزم و ہمت کے ساتھ برداشت کیا ہے، ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین میں سینٹ کا کردار بجٹ سازی پر محدود ہے، یہ تجاویز ایک آمر نے دی تھی، جمہوری قوتوں کو کوشش کرنی چاہیے تھی، اب وقت آ گیا ہے کہ اپر ہاؤس کے پاس بھی بجٹ میکنگ اور منی بل میں کردار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سینٹ انتخابات میں ایک فلسفہ ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے،ماضی میں صوبوں اور وفاق کے درمیان خلیج کی یہی وجہ ہے کہ حقائق کو قبول نہیں کیا گیا، ماضی میں جس نے صوبوں کو حقوق دینے کی بات کی اسے غدار قرار دیا گیا، بیرونی ممالک کا ایجنٹ اور وفاق کو توڑنے والا قرار دیا گیا مگر1947ء سے آج تک مضبوط مرکز کا تجربہ کرتے رہے جو ناکام ہے، مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی علامت ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کا ڈھانچہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو عوام کی اونر شپ دینی ہو گی، شفافیت عوام کے سامنے آنی چاہیے، جب تک وفاق کی اکائیوں کی اونر شپ ایوان کے پاس نہیں ہو گی، پارلیمان اور وفاق پاکستان مضبوط نہیں ہو سکتا، 12 مارچ سے اب تک کی ریفارم کا مقصد عوام کی شرکت اور اونر شپ دینا تھا، اسی ماہ کے دوران نئی ویب سائٹ بنائی جائے گی، چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ اور مراعات کوئی اسٹیٹ سیکریٹ نہیں ہے، عوام کو رسائی ہونی چاہیے، آرٹیکل سکس پارلیمان اور سسٹم کی ضمانت نہیں دے سکتا، آئین و پارلیمان کا تحفظ کرنے میں بھی آئین اور پارلیمان کا تحفظ صرف عوام کر سکتی ہے، عوام اسی وقت تحفظ کیلئے اٹھے گی جب اسے محسوس ہو گا کہ اونر شپ اس کے پاس ہے،سسٹم اور آئین کو بچانا ہے تو سیف گارڈ عوام کو بنانا ہو گا، میڈیا کا کلیدی کردار ہے، پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ جمہوریت کی جدوجہد اور آئین کے تحفظ کیلئے تاریخی کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت تجربات کا نہیں بہت تجربات کرلئے اسی لئے اب زیرو پر کھڑے ہیں، تجربات سے نکلیں اور تاریخ کے فیصلوں کو تسلیم کریں۔