ڈسکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان آبائی قبر ستان میں سپرد خاک

نماز جنازہ میں چوہدری سرور سمیت سینکڑوں افراد کی شر کت ‘وکلاء تنظیموں کی کال پر سانحہ کیخلاف ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی‘لاہور میں مشتعل وکلاء نے پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ کے دوران مرکزی دروازے پر بنے سکیورٹی شیڈ کو آگ لگا دی ‘ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا سا سانحہ ڈسکہ کے خلاف لاہور پر یس کلب کے باہر احتجاجی مظاہر ہ ‘دونوں جماعتوں کا وکلاء کے مطالبات کی منظوری انکا بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کر دیا لاہور میں وکلاء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں چیف جسٹس منظور احمد ملک ،دیگر معزز جج صاحبان سمیت وکلاء کی کثیر تعداد کی شرکت

منگل 26 مئی 2015 21:14

لاہور/اسلام آباد/ڈسکہ /پشاور/گوجرانوالہ/سیالکوٹ/کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 مئی۔2015ء) ڈسکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونیوالے تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان آبائی قبر ستان میں سپرد خاک ‘نماز جنازہ میں تحر یک انصاف کے صوبائی آرگنائزر چوہدری محمد سرور سمیت سینکڑوں افراد کی شر کت ‘وکلاء تنظیموں کی کال پر سانحہ کیخلاف ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی‘لاہور میں مشتعل وکلاء نے پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ کے دوران مرکزی دروازے پر بنے سکیورٹی شیڈ کو آگ لگا دی ‘تحر یک انصاف اور پیپلزپارٹی کا سا نحہ ڈسکہ کے خلاف لاہور پر یس کلب کے باہر احتجاجی مظاہر ہ ‘دونوں جماعتوں کا وکلاء کے مطالبات کی منظوری انکا بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان کی نماز جنازہ آبائی علاقوں میں ادا کی گئی جس میں سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ، مقامی سیاسی شخصیات سمیت پنجاب بھر سے وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ نماز جنازہ کے بعد مرحومین کو ان کے آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کردیا گیا، اس دوران وکلاء میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی بھی کی جاتی رہی ۔

اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی الرٹ رہے ۔وکلاء کی ہلاکت کے واقعے کیخلاف شہر بھر میں بھی سوگ کا سماں رہا جبکہ مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بند رہی ۔امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں بھی چھٹی رہی ڈسکہ میں مقامی عدالتوں میں کسی طرح کی کارروائی نہ ہو سکی جس کے باعث سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

لاہور میں وکلاء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور احمد ملک اور دیگر معزز جج صاحبان سمیت وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ لاہور میں پاکستان بار کونسل ، پنجاب بار کونسل، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کامشرکہ اجلاس ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ڈسکہ کیلئے جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کا سب کو علم ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کر کے 15دن کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے، ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ انضباطی کاروائی عمل میں لائی جائے ،ایس ایچ او چونیاں کو معطل کیا جائے وکلاء کے خلاف پرچے واپس لئے جائیں،اگر مطالبات منظور نہ ہوئے تو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن آج ( بدھ ) کو جنرل ہاؤس کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرے گی۔

مشترکہ اجلاس صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن پیر محمد مسعود چشتی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرح اعجاز بیگ، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد احمد قیوم اور فنانس سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سید اختر حسین شیرازی ، لاہورکے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔

اجلاس سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر ، وائس چیئرپرسن پنجاب بار کونسل فرح اعجاز بیگ اور سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن محمد احمد قیوم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پولیس غنڈہ گردی، وحشت و بربریت اور ظلم کا نشان بن چکی ہے۔ سانحہ ڈسکہ کے خلاف سراپا احتجاج کرتے وکلاء کو پنجاب بھر میں پولیس کے تشدد اور بربریت کا سامنا ہے ۔

انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس کو متنبہ کیا کہ صوبہ بھر کی پولیس کو وکلاء پر تشدد سے باز رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل کرنے سے بات نہیں بنے گی کیونکہ سانحہ ڈسکہ کا اصل مجرم وہی ہے۔ سانحہ ڈسکہ کیلئے کسی جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں تمام واقعات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس سانحہ میں ملوث تمام مجرموں کا ہر ایک کو علم ہے لہٰذا ان کے خلاف چالان انسداد دہشت گردی میں پیش کر کے 15دنوں کے اندر فیصلہ ہونا چاہیے کیونکہ وکلاء خون کا بدلہ خون نہیں بلکہ صاف اور شفاف انصاف چاہتے ہیں۔

صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن پیر مسعود چشتی نے رائے شماری کیلئے مندرجہ ذیل قرارداد ہاؤس کے سامنے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ڈسکہ کیلئے جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کا سب کو علم ہے ۔ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی میں چالان پیش کر کے 15دن کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ ، وائس چیئرپرسن پنجاب بار کونسل فرح اعجاز بیگ، صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن پیر محمد مسعود چشتی ، صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ خواجہ اویس مشتاق ، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن پر مشتمل کمیٹی ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے باہمی اشتراک سے سانحہ ڈسکہ میں ملوث ملزمان کا ٹرائل کر کے 15دن کے اندر فیصلہ سنائے گی۔

ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے۔بار ایسوسی ایشن چونیاں کے واقعہ پر اگر آئی جی پنجاب پولیس بروقت پولیس کے خلاف کاروائی عمل میں لاتے تو سانحہ ڈسکہ پیش نہ آتا۔ یہ ہاؤس مطالبہ کرتا ہے کہ ایس ایچ او چونیاں کو معطل کیا جائے وکلاء کے خلاف پرچے واپس لئے جائیں۔ اگر مطالبات منظور نہ ہوئے تو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن آج ( بدھ ) کو جنرل ہاؤس کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرے گی۔

بعد ازاں وکلاء نے جی پی او چوک پر احتجاج کرنے کے ساتھ فیصل چوک تک احتجاجی ریلی نکالی ۔ وکلاء سارے راستے پولیس کے خلاف اور انصاف کے لئے نعرے لگاتے رہے ۔فیصل چوک پہنچ کر وکلاء نے پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کر لیا اور مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے اندر بھی داخل ہونے کی کوشش کی تاہم مرکزی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے انکی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی ۔

احتجاج کے دوران مشتعل وکلاء نے مرکزی دروازے پر سکیورٹی اہلکاروں کے لئے بنائے گئے شیڈ اور قناتوں کو آگ لگا دی جس سے دھویں کے بادل اٹھتے رہے ۔ وکلاء نے مال روڈ پر بھی ٹائر جلا کر احتجاج کیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی ۔ وکلاء کے مال روڈ پر گورنر ہاؤس کی طرف احتجاجی مارچ کے پیش نظر کنٹینرز کھڑے کر کے سکیورٹی انتظامات مزید سخت کر دئیے گئے تاہم وکلاء نے اپنا احتجاج فیصل چوک تک ہی محدود رکھا اور بعد ازاں واپس چلے گئے۔

وکلاء نے جی پی او چوک میں کافی دیر تک احتجاج کیا جسکے باعث ہائیکورٹ آنے والے معزز جج صاحبان او رعملہ کو باہر نکلنے میں مشکلات درپیش رہیں ۔ بعد ازاں صدر لاہو رہائیکورٹ بار کی درخواست پر وکلاء نے جی پی او چوک کو خالی کر دیا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے باہر بھی مشتعل وکلاء نے ایلیٹ فورس کی گاڑی کو روک کر آگ لگانے کی کوشش کی اور گاڑی کی سیٹوں کو باہر نکال کو انہیں آگ لگا دی ۔

وکلاء نے ڈنڈوں سے گاڑی کے شیشے توڑ دیئے اور گاڑی کو الٹا دیا ۔ ہڑتال کی کال کے باعث وکلاء لاہو رسمیت ملک بھر میں عدالتوں میں پیش نہ ہوئے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جسکے باعث ہزاروں مقدمات کی سماعت نہ ہو سکی ۔ لاہور کے علاوہ ڈسکہ ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان ، فیروز والہ سمیت ملک بھر میں وکلاء تنظیموں نے احتجاجی اجلاس منعقد کر کے اس سانحے کی مذمت اور ذمہ دارن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبہ کیا ۔ وکلاء نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور ریلیاں بھی نکالیں جسکے باعث مختلف شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام گھنٹوں جام رہا ۔سانحہ کے خلاف بار رومز اور عدالتوں کے باہر سیاہ جھنڈے لہرا ئے گئے اور وکلانے بازں پر سیاہ پٹیاں باندھے رکھیں۔