اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم،فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی

منگل 26 مئی 2015 16:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ میں اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم، فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کر دی گئی،چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا جج کی تعیناتی امتحانات کے ذریعے ہونی چاہیے،جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کئی آرٹیکلز میں ترامیم ہوئی، پارلیمنٹ نے پورے آئین پر نظرثانی کر دی جس کا اسے اختیار نہیں تھا۔

منگل کو سپریم کورٹ میں اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس، جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ نے سماعت کی۔ سماعت میں جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کئی آرٹیکلز میں ترامیم ہوئی، پارلیمنٹ نے پورے آئین پر نظرثانی کر دی جس کا اسے اختیار نہیں تھایہ قانون ساز اسمبلی ہے جس نے آئین ساز اسمبلی کااختیاراستعمال کیا، وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل دیئے کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں سے متعلق لوگوں کے خیالات اچھے نہیں،ابلیس نے کہا کہ اب میری ضرورت نہیں،سیاستدانوں کی صورت میں میرے جانشین آ گئے ہیں، سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونا غیر جمہوری طرز عمل ہے، اٹھارہویں ترامیم میں انٹراپارٹی الیکشن کی شرط آئین سے نکال دی گئی تھی۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف جمہوریت کی حمایت اور دوسری جانب آپ سیاستدانوں کو برابھلا کہتے ہیں۔ اے کے ڈوگر نے دلائل دیئے کہ بار ایسوسی ایشن اس لئے مجبور ہے کہ ان کے ہر سال انتخابات ہوتے ہیں، طویل عرصے کے لئے کسی شخص کے پاس اختیارات کا رہنا کرپشن کو جنم دیتا ہے، ایک شخص کے بار بار وزیراعظم بننے سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ کمیشن میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار پر اعتراض ہے، اس حوالے سے وکلاء سے درخواستیں طلب کی جائیں۔

متعلقہ عنوان :