ادبی تخلیقات کی کمی کے باعث جدید میڈیا پر جاری بے حیائی کا سیلاب ہماری قوم کو اپنی تہذیب و تمدن سے دور کر رہا ہے‘ شعراء و ادباء کو یہ ذمہ داری کہ وہ اپنی تحریروں کی ذریعے نوجوان نسل کو اسلام کی تعلیمات کے ساتھ جوڑیں

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے ممبراور لاہور ہائی کورٹ لاہور کے جسٹس (ر) میاں نذیر اختر کا تقریب سے خطاب

اتوار 24 مئی 2015 21:17

راولپنڈی( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 مئی۔2015ء ) اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے ممبراور لاہور ہائی کورٹ لاہور کے جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے کہا ہے کہ ادبی تخلیقات کی کمی کے باعث جدید میڈیا پر جاری بے حیائی کا سیلاب ہماری قوم کو اپنی تہذیب و تمدن سے دور کر رہا ہے ․ شعراء و ادباء کو یہ ذمہ داری کہ وہ اپنی تحریروں کی ذریعے نوجوان نسل کو اسلام کی تعلیمات کے ساتھ جوڑیں ، زیادہ محنت اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چائییے ․ ادب کسی بھی معاشرے کا وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں مروجہ معاشرتی اقدار کی جھلک ملتی ہے ․ میاں محمد جمیل اطہر کا کلام ادب برائے ادب کے برعکس ادب برائے زندگی کا مظہر ہے ․ انہوں نے یہ بات ادبی تنظیم حرف اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام انجمن فیض الاسلام کی جنرل کونسل کے ممبر لیفٹیننٹ کرنل (ر) میاں محمد جمیل اطہر کے شعری مجموعے ’’چشم فلک ‘‘ کی تقریب رونمائی سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہی ․ اس موقع پر معروف ادیب و شاعر اور کالم نگار جمیل یوسف ، شعراء سرفراز شاہد ، نثار ناسک ، ڈاکٹر پروفیسر ایوب صابر، مظفر اسلم ، چئیرمین حرف اکادمی پاکستان کرنل سید مقبول حسین ، انجمن فیض الاسلام کے صدر محمد صدیق اکبر میاں اور جنرل سیکریٹری راجا فتح خان سمیت شعراء و ادباء کی بڑی تعداد موجود تھی ․ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے کہا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں زندگی کے تمام موضوعات پر انتہائی پر اثر نظمیں اور غزلیں لکھی ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے اندر ایک احساس تازہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے ․ معروف ادیب ، شاعر اورکالم نگار جمیل یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) میاں محمد جمیل اطہرکا کلام انسان میں ایک جوش، جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتا ہے اور زندگی میں کوئی نمایاں کام سرانجام دینے کی طرف مائل کرتا ہے․ انہوں نے کتاب کے مصنف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں شعر و ادب کی دنیا میں ایک خوشگوار اضافہ قرار دیا ․ انہوں نے کہا کہ میاں محمد جمیل اطہر نے زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اس پر بے ساختہ انہیں داد دینے کو دل چاہتا ہے ․ سرفراز شاہد نے کتاب پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حسن خیال کو جب حسن بیان بھی مل جائے تو ادبی تخلیق دو آتشہ ہو جاتی ہے اور یہی وصف میاں محمد جمیل اطہر کی شاعری کا ہے ․ انہوں نے کہا کہ ادیب جب اپنے معاشرے کی خرابیوں اور خامیوں کو موضوع بناتا ہے تو اس سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہے ․ ادب کی ترویج کے بغیر معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں لہذا حکومت سمیت ہر سطح پر ادب کے فروغ کی کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے ․نثار ناسک نے مصنف کو خراح تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعر و ادیب اگر اصلاح کا بیڑہ اٹھا کر کام کرے تو وہ اقبال بن جاتا ہے ․ انہوں نے کہا کہ وہ مصنف کی کتاب پر ایک تفصیلی مضمون تحری کریں گے ․ ڈاکٹر پروفیسر ایوب صابر اور مظفر اسلم نے اپنے خیالا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شعر و ادب کا شعبہ اتنا پر کشش نہیں رہا اور جو لوگ اس جانب آ رہے ہیں وہ کمال کر رہے ہیں ․ انہوں نے اس شعبے کیلئے حکومتی سرپرستی کی ضرورت پر بھی زور دیا ․ انجمن فیض الاسلام کے صدر محمد صدیق اکبر میاں نے اپنے خطاب میں کرنل (ر) محمد جمیل اطہر کو مبارکباد دی اور کہا کہ انہوں نے جس خوبصورتی کے ساتھ اپنی خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ لائق تحسین جذبہ ہے ․ اپنے آباء و اجداد کی وراثت کو اتنے دل نشین اور خوبصورت انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے والے ان کی اچھائیوں کو اپنانے پر مائل ہوں اتنا آسان نہیں مگر مصنف نے اس مشکل کو باآسانی سر کیا ․ حرف اکادمی پاکستان کے چئیرمین کرنل (ر) سید مقبول حسین نے کہا کہ شاعر نے اپنے داخلی و خارجی احساسات و جذبات کو انتہائی مہارت کے ساتھ سپرد قلم کیا ․ شاعری کا یہ والہانہ اور فطری انداز قابل تعریف و تقلید ہے ․ اس موقع پر کرنل (ر) محمد جمیل اطہر نے اپنے کلام کے کچھ حصے خود پڑھ کر سنائے اور کہا کہ کتاب میں گو کہ میں نے اپنے آباء و اجداد اور ان کے رفاعی کاموں کو زیادہ بڑا موضوع بنایا مگر یہ کہانی یا معاملات ہمارے ہر گھر کے ہیں ․ انہوں نے کتاب کی طباعت کے مراحل میں معاونت کرنے والے تمام احباب کا شکریہ بھی ادا کیا ․

متعلقہ عنوان :