قومیں جذبہ حب الوطنی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں، آج قومی یکجہتی کیلئے حکیم محمد سعید کے اخوت و محبت کے مشن کو عام کرنے کی ضرورت ہے‘ ترقی یافتہ ممالک علم کی بدولت ہی آج عالمی سرخیل بنے ہوئے ہیں‘قوم کے مستقبل نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کراناضروری ہے

چانسلر ہمدرد یونیورسٹی سعدیہ راشد کی صحافیوں سے بات چیت

ہفتہ 23 مئی 2015 22:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 23 مئی۔2015ء) چانسلر ہمدرد یونیورسٹی سعدیہ راشد نے کہا ہے کہ قومیں جذبہ حب الوطنی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں، آج قومی یکجہتی کیلئے حکیم محمد سعید کے اخوت و محبت کے مشن کو عام کرنے کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ممالک علم کی بدولت ہی آج عالمی سرخیل بنے ہوئے ہیں۔قوم کے مستقبل نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کراناضروری ہے۔

قومی وسائل سے مالا مال قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کے پاکستان کا ہر فرد سچا پاکستانی بن جائے تو ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو سکتا ہے۔ مختلف تعلیمی سسٹم قوم کو طبقات میں تقسیم کررہے ہیں۔ وہ گزشتہ روز یہاں صحافیوں سے گفتگو کررہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی انقلاب کے بغیر قومی استحکام کا تصور ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

تعلیم قوم کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔

دینی اور دینوی تعلیم کا امتیاز غیر فطری اور غیر اسلامی ہے۔ پرائمری سطح پر تعلیمی نصاب مختصر ہونا چاہئے اور مقامی زبانوں کی ترویج بھی ضروری ہے۔ اردو کا فروغ آئین کا تقاضا بھی ہے۔ہمدرد کے اداروں میں شروع سے اردو زبان رائج ہے۔اعلیٰ تعلیم کو مزید ضابطوں کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے انقلابی اقدامات کئے، پھر ڈاکٹر جاوید لغاری کے بعد اب ڈاکٹر مختار احمد کی کاوش کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔

حکیم سعید ایک وژن اور مشن کا نام ہے۔ وہ خود کو علامہ اقبال اور قائداعظم کا ایک سپاہی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے نوجوان نسل کی تربیت کیلئے مدینہ الحکمت ادارہ قائم کیا۔ مقام ابراہیم پر دوران حج انہیں علم کے شعبہ میں کام کرنے کا اشارہ ہوا۔ کراچی میں 900 بچوں کویونیفارم اور کتب مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ ہمدرد ویلیج سکول قائم کئے گئے ہیں جن میں دیہات اورگوٹھوں کے بچوں کو مفت تعلیم دی جارہی ہے۔

نونہال اسمبلی کے علاوہ انٹرنیشنل ہیلتھ کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ حکیم سعید نے تحریر وتصنیف میں بھی بڑا کام کیا اور فلاحی شعبے کو بہت زیادہ توجہ دی۔ مدر اینڈ چائلڈ کا شعبہ قائم کیا جسے اب مکمل ہسپتال کا درجہ دیا جارہا ہے۔ 5 لاکھ کتب پر مبنی لائبریری قائم کی گئی ہے۔ اب اسلام آباد میں شہر علم و حکمت قائم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے فروغ تعلیم کو تجارتی بنیادوں پر نہیں ایک مشن کے طور پر اپنایا۔

مستحق بچوں کو سالانہ چار کروڑ روپے کے وظائف دیئے جارہے ہیں۔ حکیم سعید نے بطور گورنر کوئی تنخواہ وصول نہ کی۔ پہلی مرتبہ چار یونیورسٹیوں سرسید، بقائی، فاطمہ جناح اور ضیاء الدین یونیورسٹی کی منظوری دی جبکہ اپنی ہمدرد یونیورسٹی کو خود چارٹر نہیں کیا۔ سب سے پہلے اردو کمپوزنگ جنگ اور ہمدرد میں رائج ہوئی، میرٹ پر سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔

پی ایچ ڈی کا مقالہ چیکنگ کیلئے بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا تصور مسجد نبوی سے لیا گیا ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفریق مغرب کی نقالی ہے۔ نجی شعبہ تعلیمی کی فراہمی کے حکومتی فریضے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ حکومت اس شعبے کوریگولیٹ کرے اور گرانٹس بھی جاری کرے۔ نقل کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ علم کے بغیر نوجوان نسل کے ہاتھوں میں کاغذ کا ٹکڑا دینا قوم کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔

اس طرح مستقبل کو غیر محفوظ کیا جارہا ہے۔ ناخواندگی اور جہالت کے خلاف جنگی بنیادوں پر پلان تیار کیا جائے، تہجد گزار حکیم سعید اکثر روزے سے ہوتے شہادت کے روز بھی وہ روزے سے تھے۔ وہ موت سے کبھی خائف نہیں ہوتے تھے۔ انہیں اپنے مشن اور پاکستانیت سے عشق تھا۔ ادارہ ہمدرد آج بھی حکیم سعید کے مشن اور وژن کے مطابق غیر سیاسی سوچ پر عمل پیرا ہے۔

متعلقہ عنوان :