آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام دہشتگردوں کیخلاف لڑنا ہے ٗ فوج کو جج بنا کر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے ٗسپریم کورٹ

سپریم کورٹ فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی، 21ویں آئینی ترمیم میں اختیار محدود کردیا گیا ہے ٗ خالد انور کیا آپ کہتے ہیں انصاف 2 سال کے لئے معطل کردیں؟جسٹس آصف سعید کھوسہ کامکالمہ مقدمات طوالت کا شکار ججز کی وجہ سے نہیں ٗ استغاثہ کی وجہ سے ہوتے ہیں ٗ جسٹس آصف سعید کھوسہ

جمعرات 21 مئی 2015 18:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21مئی۔2015ء) سپریم کورٹ نے 18ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہے لیکن فوج کو جج بنا کر اس پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے حکومتی وکیل خالد انور سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کو آئینی ترمیم ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں جس پر خالد انور نے کہا کہ سپریم کورٹ فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی، 21ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کا اختیار محدود کردیا گیا ہے، چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ دو روز تو یہ دلائل دیتے رہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس وہی اختیارات ہیں جو آئین دیتا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے 21ویں آئینی ترمیم ضروری تھی سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ ناکام ہوا، دہشت گردی سے متعلق فوجی عدالتوں کا قیام ضرورت ہے، فوجی عدالتوں کا قیام کڑوی گولی ہے لیکن ہمیں کھانی پڑے گی۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مقدمات طوالت کا شکار ججز کی وجہ سے نہیں بلکہ استغاثہ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کو جج بنا کر ان پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے، آرمی چیف فیصلہ کریں گے یادوسرے معاملات چلائیں گے، آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ انصاف 2 سال کے لئے معطل کردیں، کیس کی مزید سماعت 25 مئی پیر کوہوگی۔

متعلقہ عنوان :