امیر ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت تمام زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کریں،مشاہداﷲ خان

بدھ 6 مئی 2015 20:26

اسلا م آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 مئی۔2015ء)وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ، سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے امیر ممالک غیرسنجیدہ رویہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان امیر ممالک کو اپنے اپنے ملکوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت تمام زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہونگی ، جس کے باعث آج پاکستان سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دوچار ہیں ۔

بدھ کے روز کو گلوبل انوائرونمینٹ فیسلیٹی کے تعاون سے وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے ماحولیاتی مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے حوالے سے قومی مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اﷲ خان نے تمام ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کے ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ امیر ممالک پر زور دیں کے وہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ترقی پذیر ممالک میں آنے والی آفات کا ازالا کریں اور غریب ممالک کومالی اور تکنیکی مدد فراہم کریں تاکہ وہ مستقبل میں آنے والی قدرتی آفات سے اپنی لوگوں، ان کے ذریعہ معاش، قدرتی وسائل اور حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کر سکیں۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے مالی و تکنیکی معاونت کی مسلسل عدم فراہمی پر پھٹ پڑے اور کہا کہ پاکستان سمیت ترقی پذیرممالک کئی دہائیوں سے امیر ممالک کی ترقی کا خمیازہ بھگترہے ہیں، عالمی حدت کے زمہ دار امیر ممالک نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، ترقی پذیر ممالک کو مالی وسائل کی فراہمی میں عدم دلچسپی نے دنیا کو خطرے سے دوچار کردیا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کی آبادیاں، معیشت اور طرز زندگی کی تباہی کے دہاے پر پہنچ چکی ہے۔

ان کہا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی عشروں کی سائنسی ترقی اور معلومات اور اسکے جائزے نے آج ہمیں باور کرنے پر مجبور کردیاہے کہ ہمارا کرہ ارض تربدیلی کے عمل سے گذرہا ہے اور یہ بتدریج تبدیلی کا عمل کئی زاویوں سے اس لیے بڑاہم ہے کہ اس سے ساری انسانیت پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہونگے۔تاریخی اعتبار سے آج یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بارہ گرم ترین سالوں کا تعلق گذشتہ پندرہ برسوں سے ہے جس کا پچھلے برس سمندر کے کچھ حصوں میں ریکارڈ درجہ حرارت کا ۳)مشاہدہ کیا گیا ہے۔

جبکہ قطب شمالی پر برفانی حجم میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ خیال کردہ متوقع رفتار سے کہیں زیادہ تیز واقع ہوئی ہے۔مشاہد اﷲ خان نے مزید کہا کہ آج ہم کسی حد تک جان چکے ہیں کہ کوئی بھی موسمیاتی تغیرکا واقعہ موسمیاتی تبدیلی (climate change) کے وسیع عمل سے علیحدہ نہیں۔ آج ہمیں اسی بات کا بھی ادراک ہے کہ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے باعث کرہ ارض کے تمام موسمی حالات متاثر ہورہے ہیں۔

جیساکہ 2012سال ہماری معلوم تاریخ کا سب سے گرم ترین سال تھااور درجہ حرارت میں اس نمایاں تبدیلی کے اثرات سطح سمندر میں بتدریج اضافے کی صورت میں نمودار ہورہے ہیں۔ آج بڑی حد تک ہم پر یہ آشکار ہوچکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اس جاری عمل کے باعث ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے وہ خواہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی صورت میں ہویا ذریعہ معاش کے مختلف ذرائع کی تباہی ، مکانات یا انفراسٹرکچرکے متاثر ہونے کے باعث ہمیں آج اربوں ڈالرز کی خطیر رقم ہنگامی حالات یا مختلف وقوع پذیر آفات سے نمٹنے پر خرچ کرنی پڑرہی ہے۔

درحقیقت جو بہت پہلے سے ان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا احساس رکھتے تھے وہ آج اسے ایک حقیقت کے روپ میں دیکھ رہے ہیں اور اس سے نبردآزما ہونے میں مصروف عمل ہیں۔وفاقی وزارت کے سیکیریٹری ، عارف احمد خان نے مشاورتی ورکشاپ کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کسان بے ترتیب اور بے اعتبار موسموں اور بارشوں کے باعث ایک برس اپنی فصل کو مرجھائی یا متاثر ہوا پاتا ہے تو اگلے برس سیلاب کی نذر ۔

اور یوں عام صارفین کے لیے اشیاء خوراک کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ اور اس کی دستیابی مشکل تر مشکل ہوتی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے بھوک اور افلاس میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ شمالی علاقہ جات اور نشیبی علاقوں میں بسنے والے خوفزدہ ہیں کہ تیزی سے تنزلی کا شکار گلیشیئرز ہماری آئندہ کی نسلوں کے لے توانائی، خوراک اور پانی کی موجودگی ایک بڑہ چیلنج ہوگا۔

آج ہم پورے پاکستان میں اپنی کوتاہی اور غفلت کی بھاری قیمت تعمیرِنو یا تباہ کاریوں سے نمٹنے کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔عارف احمد خان نے مزید کہا کہ لہذا ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بھرپور عمل سے اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہے۔ کہیں دیر نہ ہوجائے!۔ اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے اپنے قدرتی ماحول کے تحفظ اور قدرتی وسائل جیسے پانی، ہوا، نباتات، درخت، زمین کے ماحول دوست، پائیدار اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ہمیں اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس مشاورتی ورکشاپ سے ملک کے تمام صوبوں کے اہم سرکاری نمائندوں نے شرکت کی ، جنہوں نے اپنے اپنے صوبوں کے مختلف سماجی اور معاشی شعبوں پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے حوالے سے بات کی ۔۔