حکومت پاکستان کے پاس کل 20بلٹ پروف گاڑیاں ہیں ، یہ وزیراعظم ، آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق وزرائے اعظم، چیئرمین سینیٹ ،سپیکر قومی اسمبلی ،وزیر اعلیٰ بلوچستان و خیبرپختونخوا سمیت اہم شخصیات کو دی گئی ہیں، وزیراعظم کے سکواڈ میں صرف ایک بلٹ پروف گاڑی ہے

سینیٹ کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کے ارکان کے سوالوں کے جواب سائبر کرام کی روک تھام کیلئے الیکٹرانک کرائمز کنٹرول بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس ہے ، یوٹیوب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بند ہے، انوشہ رحمن

بدھ 6 مئی 2015 19:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 مئی۔2015ء) وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس کل 20بلٹ پروف گاڑیاں ہیں جو وزیراعظم نواز شریف ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین، سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چیئرمین سینیٹ ،سپیکر قومی اسمبلی، وزیر اعلیٰ بلوچستان و خیبرپختونخوا سمیت اہم شخصیات کو دی گئی ہیں، وزیراعظم کے سکواڈ میں وزیراعظم کی گاڑی کے علاوہ باقی بلٹ پروف نہیں ہوتیں، موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد کوئی بلٹ پروف گاڑی درآمد نہیں کی، وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمن نے کہا کہ ملک میں سائبر کرام کی روک تھام کیلئے الیکٹرانک کرائمز کنٹرول بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس ہے اس بل پر تمام سٹیک ہولڈروں سے درجنوں بار مشاورت کی جا چکی ہے، یوٹیوب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بند ہے۔

(جاری ہے)

وہ یہاں بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔وزیر مملکت برائے کابینہ ڈویژن شیخ آفتاب احمد نے ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی کے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی پولیس سروس کیڈر اس وقت 743 افسران پر مشتمل ہے جس میں گریڈ 17 تا 22 کے پولیس افسران شامل ہیں۔ پاکستان پولیس کیڈر میں فاٹا کے 23،بلوچستان 54 اور آزاد کشمیر کے 11 افسران شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس معاملے میں کوٹے پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ سینیٹر سعید غنی کے سوال پر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ ہماری حکومت کے دوران کوئی بلٹ پروف گاڑی نہیں خریدی گئی،حکومت کے پاس اس وقت 20بلٹ پروف گاڑیاں ہیں جو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو دی گئی ہیں، جن میں وزیراعظم، سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف آف آرمی سٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، وزیراعلیٰ بلوچستان، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی، مولانا فضل الرحمان، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو دی گئی ہیں، مذکورہ گاڑیاں جرمنی سے منگوائی گئی تھیں جبکہ ایک کار چھ کروڑ روپے میں پڑی تھی۔

سینیٹر طلحہ محمود کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ وزیراعظم کے سکواڈ میں شامل دیگر گاڑیاں بلٹ پروف نہیں ہوتیں۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے سینیٹر کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی کے سوال پر کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے کیلئے الیکٹرانک کرائمز بل قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جو قائمہ کمیٹی میں ہے، مذکورہ بل میں 27 مزید سائبر جرائم کو شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبل اس کے سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے کیلئے نیشنل ریسپانس سینٹر برائے سائبر کرائمز قائم کیا گیا، اس کے علاوہ سائبر الرٹ سروس قائم کی جا رہ یہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک کرائمز بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے منظور کرلیا ہے جبکہ مذکورہ بل پر مشاورت کیلئے قائمہ کمیٹی کی ایک عوامی میٹنگ بھی منعقد کی گئی۔

سینیٹر الیاس بلوچ کے ضمنی سوال پر انوشہ رحمن نے کہا کہ اگر کسی کو بیرون ملک سے کال آئے اور موبائل فون کی سکرین پر پاکستانی فون نمبر آئے تو پی ٹی اے کو مطلع کیا جائے۔ سینیٹر نعمان وزیر کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک کرائمز بل 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جبکہ سٹیک ہولڈرز کے سات اس پردرجنوں مرتبہ مشاورت کی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سینیٹ کی ویب سائٹ ہیک ہوئی تو اس کی رپورٹ طلب کی اور کہا گیا کہ سینیٹ کی ویب سائیٹ سینیٹ ملازمین ہی چلاتے ہیں، جس پر چیئرمین رضاربانی نے کہا کہ سینیٹ کی ویب سائیٹ نیشنل کمیونیکیشن کمپنی چلاتی ہے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب یوٹیوب پر توہین آمیز فلم آئی تو اس وقت پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ کے حکم پر یوٹیوب بلاک کی گئی تھی۔

وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ میٹرو بس منصوبے کے حوالے سے سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی مگر سی ڈی اے کے ممبر آپریشن اور پلاننگ پارلیمنٹ میں موجود نہیں جبکہ جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی پارلیمنٹ میں موجود نہیں، لہٰذا جواب ملنا مشکل ہے۔ جس پر چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ لگتا ہے کہ سی ڈی اے والے خود کو پارلیمنٹ سے بالاتر سمجھتے ہیں، پارلیمنٹ کی دیکھ بھال بھی سی ڈی اے والے کرتے ہیں، لہٰذا پارلیمنٹ کا بھی اﷲ حافظ ہے چیئرمین سینیٹ نے دونوں معاملات خصوصی کمیٹی برائے استحقاق کو بھجوا دیئے۔