وفاقی حکومت نے کے فور منصوبے کیلئے اپنے حصے کے فنڈز میں سے8کروڑ روپے جاری کر دیئے، مزید 12کروڑ ڈیمانڈ ملنے پر جاری کردیئے جائیں گے ، منصوبے کیلئے 3ارب روپے اضافی جاری کردیئے گئے ، بیڈ گورننس کی وجہ سے بڑے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں، وفاقی حکومت کا میٹرو بس اور میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے پنجاب حکومت کو فنڈز کی فراہمی کا تاثر درست نہیں

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا سینیٹر نسرین جلیل کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہا ر خیال کراچی منی پاکستان ہے ،اس کو پانی کی عدم فراہمی ملک کے خلاف سازش ہے،، پانی کی پائپ لائنوں کو توڑ کر غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے پمپنگ اسٹیشنوں کا خاتمہ بہت بڑا مسئلہ ہے،سینیٹرنسرین جلیل، تاج حیدر اور دیگر کا سینیٹ میں اظہار خیال

بدھ 6 مئی 2015 18:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کیلئے اپنے حصے کے فنڈز میں سے8کروڑ روپے جاری کر دیئے، مزید 12کروڑ ڈیمانڈ ملنے پر جاری کردیئے جائیں گے جبکہ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر 3ارب روپے مذکورہ منصوبے کیلئے اس کے علاوہ مختص کئے گئے ہیں، سندھ حکومت کے فور منصوبے میں میرٹ پر بھرتیاں کرے کیونکہ بری گورننس کی وجہ سے بڑے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے لاہور میں میٹرو بس اور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے پنجاب حکومت کو فنڈز کی فراہمی کا تاثر درست نہیں، پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سندھ حکومت نے کے فور منصوبے کیلئے85کروڑ جبکہ وفاقی حکومت نے صرف 200مختص کئے، گزشتہ مالی سال کے دوران قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت سندھ کو 80ارب روپے کم دیئے گئے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو یہاں سینیٹر نسرین جلیل کی تحریک پر بحث سمیٹ رہے تھے۔ بدھ کو ایم کیو ایم کی سینیٹرنسرین جلیل نے کہا کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے کے فور منصوبے کیلئے 50فیصد فنڈز وفاقی حکومت نے فراہم کرنا تھے جو کہ فراہم نہیں کئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو ٹینکر مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ڈھائی ہزار روپے کا ٹینکر فروخت ہو رہا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ کے فور منصوبے کو جلد از جلد مکمل کریں، صوبائی حکومت کا شہری سندھ کے لئے متعصبانہ رویہ ڈھکا چھپا نہیں، کراچی منی پاکستان ہے اس کو پانی فراہم نہ کرنا پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف پنجاب نہیں وفاقی حکومت دیگر صوبوں کو بھی اتنی ہی توجہ دے۔ اس حوالے سے کوئی باڈی تشکیل دی جائے تا کہ یہ منصوبہ جلد مکمل ہو سکے۔

یورپی یونین میں پینے کا پانی فراہم نہ کرنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ صوبائی حکومت سندھ نے کے فور واٹر سپلائی منصوبے کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں 84.9کروڑ مختص کئے تھے جبکہ وفاقی حکومت 20کروڑ مختص کئے مگر صرف 8کروڑ روپے جاری کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں حالانکہ وزیر اعظم نواز شریف نے 25 ارب روپے کے منصوبے کے 50 فیصد فنڈز فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اتنے معمولی فنڈز سے مذکورہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت سندھ 80ارب روپے کم جاری کئے گئے تھے اگر یہ رقم جاری کی جاتی تو یہ منصوبہ اور اس طرح کے دیگر منصوبے مکمل کرنا مشکل نہ ہوتا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کراچی میں پانی کی پائپ لائنوں کو توڑ کر غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے پمپنگ اسٹیشنوں کا خاتمہ بہت بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعلیٰ نے مسجد پر ان کے خاتمے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کے بہت سے منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن میں 150 آر او پلانٹ اور300ملین گیلن گندے پانی کو ری سائیکل کرنے کے دو منصوبے شروع کئے گئے ہیں، ہمارے اوپر امتیازی سلوک کے الزامات درست نہیں۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں پینے کے پانی کی عدم فراہمی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے، جس میں ساری قومیں بستی ہیں، اس کو مختلف حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتاھ۔

لیکن اگر حکومت کسی شہر کو بنیادی ضروریات کے حوالے سے محروم کرے گی تو اس شہر کے رہائشی اپنا رد عمل بھی ظاہر کریں گے۔ صوبائی حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ کراچی میں ٹینکر مافیا کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹینکر مافیا کے ساتھ واٹر بورڈ کے عہدیدار اور پولیس ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کی ضرورت کو صرف وزیر اعظم نواز شریف نے سمجھا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ کراچی میں کسی ایک جماعت کی 85فیصد نمائندگی نہیں، صوبائی حکومت نے گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد غیر قانونی پمپنگ اسٹیشن ختم کئے گئے جبکہ اس حوالے سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کہتی ہے کہ اندرون سندھ کی بجائے کراچی کے لوگوں کو پانی ملے نہ ملے کراچی کے لوگوں کو ضرور ملنا چاہیے، اندرون سندھ میں چھاچھرو،سجاول، کیٹی بندر سمیت متعدد مقامات پر پینے کا پانی میسر نہیں۔

کراچی واٹر بورڈ کے ملازمین و افسران گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں اگر ان کے خلاف کارروائی ہو تو شور مچ جاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں ہمارا مینڈیٹ ہمارا مینڈیٹ کی رٹ لگانا مناسب نہیں۔ کراچی واٹر بورڈ میں کوئی مستقل ایم ڈی نہیں لگایا جا سکا آئے روز ایم ڈی اور چیف انجینئر تبدیل کئے جاتے ہیں۔ یہ زبان زد عام ہے کہ جو زیادہ مٹھی گرم کرتا ہے وہ ہی ایم ڈی اور چیف انجینئر بنتا ہے۔

کراچی واٹر بورڈ میں پانچ سے سات ہزار گھوسٹ ملازمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے از خود کے فور منصوبے کیلئے پچاس فیصد فنڈز کی فراہمی کا اعلان کیا، یہ منصوبے اس سے پہلے ہی آٹھ سال تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔ پانی کا مسئلہ کربلا سے کراچی تک پہنچ گیا مگر ہماری بدنیتی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کے فور منصوبے کی پائپ لائن کے روڈ پر دو بڑی ہاؤسنگ سکیمیں شروع کی جا رہی ہیں، خدشہ ہے کہ دوستی نہ نبھائی جائے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر محمد عثمان کاکڑ نے کہا کہ کراچی میں سندھ حکومت کی رٹ موجود نہیں جبکہ وہاں پر ایک سیاسی جماعت کے دفتر کی رٹ موجود ہے۔ کراچی میں پختون، سندھی اور بلوچ آبادیوں میں 90فیصد لوگوں کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ۔ یہ المیہ ہے کہ ہم پانی بھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کر رہے ہیں، یہ امتیازی سلوک اس طرح کا امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

یہ افسوسناک ہے کہ ہم پانی کو بھی سیاسی بلیک میلنگ کیلئے استعمال کر رہ ہیں، آپ ہمارے سیکٹر انچارج کے تابع ہو جاؤ آپ کو پانی ملے گا۔ کراچی کا سروے کرنے کیلئے کمیٹی بنائی جائے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ کراچی میں لوگوں کو پینے کیلئے گندا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مختار احمد عاجز دھامرہ نے کہا کہ کلوی بگھا ر فیڈر سے 15000کیوسک پانی یومیہ کراچی کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ اس فیڈر کو بند نہیں کیا جاتا، اس کے برعکس اندرون سندھ کی نہریں شش ماہی ہیں۔

کے فور تو دور کی بات ہے بلکہ کراچی آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت نے فنڈز جاری کرنے کے جو وعدے کئے تھے وہ بھی پورے نہیں ہوئے، بلاشبہ نیت کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اے این پی کے شاہی سید نے کہا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ نہیں بلکہ کمائی کا مسئلہ ہے اور یہ ذمہ داری حکومت سندھ کی ہے، اس میں بڑے بڑے سیاسی مگر مچھ اور پولیس افسران ملوث ہیں، اگر کراچی میں دو کروڑ لوگوں کیلئے 80لاکھ افراد کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے تو پھر کراچی میں لوگ پیاس سے مر گئے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں روزانہ 1500 ٹینکر پانی بکتا ہے، ایک پمپنگ اسٹیشن مہینے میں 50لاکھ روپے کا پانی بیچتا ہے۔ سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ وزیراعظم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ کراچی میں پانی کے مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کے فور منصوبے کیلئے فنڈز جاری کریں۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ کے فور منصوبے کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی بنائی جائے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ کراچی پاکستان کا اقتصادی دارالحکومت ہے، وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ کے فور منصوبے پر جلد از جلد عملدرآمد ہو ، اس کیلئے دو قسطوں میں آٹھ کروڑ روپے جاری کئے جا چکے ہیں جبکہ سندھ حکومت بھی اپنے حصے کا فنڈ جاری کرے، ابھی تک سندھ حکومت سے 12کروڑ روپے کی ڈیمانڈ موصول نہیں ہوئی، اگر آج ڈیمانڈ موصول ہو جائے تو کل یہ پیسے جاری کر دیں گے۔

اس کے علاوہ کے فور منصوبے کیلئے تین ارب روپے مزید مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ بڑے منصوبے بری گورننس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ کے فور منصوبے میں میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ وفاقی حکومت نے لاہور میں میٹرو س اور اورنج لائن میٹرو ٹرین کیلئے کوئی فنڈز دیئے ہیں۔ کے فور واٹر سپلائی منصوبے کی تکمیل کیلئے وفاقی حکومت اپنے حصے کے فنڈز کو رکاوٹ نہیں بنائے گی۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین رضا ربانی نے سینیٹ کا اجلاس(آج) صبح 10بجے تک ملتوی کر دیا۔