سینیٹ ، سندھ حکو مت کرا چی میں پا نی کے مسئلے پرغفلت کا مظا ہر ہ کر رہی ہے ۔ ارا کان

بدھ 6 مئی 2015 16:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 مئی۔2015ء) کراچی میں پانی کی شدید قلت اور K4 منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر سینیٹر نسرین جلیل اور طاہر حسین مشہدی کی جانب سے پیش کردہ تحریک التواء پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ کراچی کو 500 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ کراچی کی ضروریات ایک ہزار گیلن ہے اس حوالے سے K4 پراجیکٹ 620 ملین گیلن پانی کا منصوبہ ہے لیکن 12 ملین کا پراجیکٹ 25 ملین تک پہنچگیا ہے ہم نے کافی کوششیں کیں کہ اس منصوبے پر کام شروع کرایا جائے اور وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد طے کرایا کہ وفاق اور پنجاب 50/50 فیصد گرانٹ فراہم کریں گے انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر سندھ حکومت اس مسئلے کو توجہ نہیں دے رہی ہے وفاقی حکومت نے امسال 200 ملین مختص کئے ۔

(جاری ہے)

صوبائی حکومت نے ابھی تک منصوبے پر کام شرو نہیں کیا ہے اور پانی کی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہے سندھ حکومت نے K4 پراجیکٹ کے لئے کوئی فندز ریلیز نہیں کئے ہیں جو کہ سندھ حکومت کی غفلت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی معیشت کا گہوارہ ہے اور 20 ملین کی آبادی والا شہر ہے اس وقت کراچی کو ٹینکر مافیا کے سپرد کر دیا گیا ہے

انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔

صوبائی حکومت اربن سندھ سے زیادتیاں کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستا ن محض پنجاب نہیں ہے دیگر صوبوں کے بھی حقوق ہیں وفاقی حکومت K4 منصوبہ اپنی نگرانی میں چلائے انہوں نے کہا کہ عوام کو پانی فراہم نہ کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس وقت کراچی میں نہ پانی ہے نہ بجلی ہے اور نہ ہی روزگار ہے ۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے یہ منصوبہ تین فیز میں مکمل ہو گا اور اس میں مزید گنجائش کی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ADP کے اندر 850 ملین جبکہ وفاقی حکومت نے 200 ملین روپے مختص کئے جس پر ہم نے احتجاج کیا کہ یہ 25 ارب روپے کا منصوبہ ہے مگر وفاق نے صرف 80 ملین روپے ابھی تک دیئے ہیں انہوں نے کہاکہ پی ایس ڈی کے اندر اس منصوبے کے لئے مزید رقم بڑھائی جائے صوبائی حکومت مرکزی حکومت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے ایف بی آر محصولات پورے کرنے میں ناکام رہی ہے گزشتہ سال بجٹ میں 80 بلین روپے کم مہیا کئے گئے ۔

سندھ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ میں 50 ارب روپے کی کمی کی ہے کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ وفاقی حکومت ہمیں مطلوبہ رقم فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں لسانی بنیادوں پر پانی فراہم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں لیاری کے لئے پانی کا منصوبہ شر وع کیا گیا مگر ان پانی کے کے پائپس کو توڑا گیا اور غیر قانونی ھائیڈریٹس قائم کئے گئے ۔

سندھ کی حکومت ابھی تک ان غیر قانونی ھائیڈرنٹس مکمل طو رپر ختم نہیں کر سکی ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بہت زیادہ سکمیں شروع کر رہی ہیں سیوریج کے مسائل حل کر رہے ہیں سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے منصوبے بھی تیار کر رہے ہیں سندھ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت سے امتیازی سلوک نہیں کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت زیادہ سے زیادہ فنڈز ریلیز کرے تاکہ ان منصوبوں کو مکمل کیا جا سکے ۔

سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ K4 منصوبہ بدانتظامی اور غلط طرز حکمرانی کی وجہ سے ابھی تک شرو ع نہ وہ سکا کراچی کے عوام خصوصاً پانی کی ضرورت سے محروم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے یہ عوام کی بنیادی ضروریات ہے میٹروبس پر خرچہ کرنے کی بجائے ایسے منصوبوں پر توجہ دی جائے کہیں صحت کے مسائل ہیں کہیں پانی کے مسائل ہیں سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ پانی کا مسئلہ انسان کی بنیادی ضرورت کا مسئلہ ہے کراچی تمام سیاسی
جماعتوں کا مشترکہ شہر ہے اور پاکستان کو سب سے زیادہ منافع دینے والا شہر ہے کراچی کے عوام کا یہ حق بنتا ہے اور ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ان مسائل کو اجاگر کریں ۔

انہوں نے کہا کہ K4 منصوبہ بے حد اہمتی کا حامل ہے کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ایک مافیا کراچی کے وسائل پر قابض ہے عوام کا پانی چرا کر عوام کو یبچا جا رہا ہے اگر عوام کے مسائل حل نہیں کئے جائیں گے تو احتجاج ان کا حق ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس منصوبے پر جلد از جلد کام شروع کیا جائے ۔ سینیٹر سی پلیچو نے کہا کہ K4 منصوبہ بہت اچھا ہے موجودہ حکومت ٹینکر مافیا کے خالف جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ سب کے سامنے ہے غیر قانونی ھائیڈرنٹس کو ختم کرنے کے لئے بھرپور اقدامات کئے گئے ہیں کراچی ہم سب کا شہر ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت پر تنقید کسی صورت جائز نہیں کراچی واٹر بورڈ میں گھوسٹ ملازمن کی بھرمار ہے اس کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے ۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے معزز اراکین کو پوائنٹ سکورنگ کی بجائے مسئلے کے حل پر توجہ دی جانی چاہئے یہ منصوبہ 2007 میں شروع کیا اور اب اس کی لاگت 25 ارب تک پہنچ چکی ہے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ سندھ حکومت کے پاس ہے مگر منصوبے کا کوئی ایم ڈی اور چیف انجینئر نہیں ہے کراچی میں یہ بات مشہور ہے کہ جو جتنا زیادہ مٹھی گرم کر سکتا ہو اس کو اچھی جگہ ملتی ہے منصوبے کے آغاز سے قبل ہی کمیشن کی باتیں شروع ہو جاتی ہے اس وقت کراچی واٹر بورڈ میں 5 سے لے کر 7 ہزار تک گھوسٹ ملازمین ہے ٹینکر مافیا کی باقاعدہ سرپرستی کی جا رہی ہے مختلف انڈسٹریل زونز اور ہاؤسنگ سکیموں کو غیر قانونی طور پانی فراہم کیا جاتا ہے اس وزارت کا انچارج کون ہے انہوں نے کہا کہ بنیادی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے ۔

8 سالوں سے منصوبے وفاقی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ بدنیتی اور ذمہ داروں کا تعین نہ کرنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے انہوں نے کہا کہ K4 منصوبے سے دو بڑی ہاؤسنگ سکیموں کو پانی فراہم کرنے کے معاملات طے کئے جا رہے ہیں سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کراچی سندھ کا دارالخلافہ ہے کراچی کو پانی کی فراہمی کے لئے فنڈز ملنا چاہئے پانی کے مسئلے کو اپنی زر اور آنا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے کراچی میں سندھ حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے صرف ایک سیاسی دفتر کی حکومت ہے کراچی میں پشتون ، سندھی اور بلوچ آبادیوں کو پانی نہیں ملتا ہے ۔

کراچی میں پانی لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا ہے کراچی کے اندر تھر جیسی صورت حال ہے اس پر بات ہونی چاہئے کراچی میں پشتونں ، سندھیوں اور بلوچیوں کے علاقوں میں تعلیم صحت ، مواصلات اور بجلی کی صورت حال انتہائی خراب ہے پانی سب کو ملنا چاہئے مگر پانی کو سیاسی بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل پر ایک کمیٹی بنائی جائے کراچی کے عوام کو یکساں طریقے اور برابری کی بنیاد پر سہولیات دینی چاہئے سینیٹر تنویر الحق نے کہا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ بہت سنگین ہو چکا ہے ۔

مختلف علاقوں میں صاف پانی کی بجائے پائپوں میں گٹر کا پانی آ رہا ہے سرکاری لائنوں میں گنداور غلیظ پانی آ رہا ہے اس پر فوری توجہ دی جائے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کراچی کی صفائی کو خصوصی توجہ دے سینیٹر دھامڑہ نے کہا کہ کلری بھگار فیڈر 12 مہینوں تک چلتا ہے اور اس سے کراچی کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے کراچی میں پانی چوری روکنے کے لئے آپریشن جاری ہے انہوں نے کہا کہ 2014 کی اے ڈی بی میں 36 ہزار ملین ایک جگہ اور 27 ہزار ملین دوسری جگہ رکھے گئے ہیں اور یہ اس مہینے رکھے گئے ہیں کہ اہم منصوبوں میں خرچ کئے جائیں گے کیا K4 منصوبہ اہم نہیں ہے وفاقی حکومت سندھ سمیت چھوٹے منصوبون کو ان کے حقوق نہیں دے رہی ہے سینیٹر شاہد سید نے کہا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کمائی کا مسئلہ ہے یہ ذمہ داری حکومت کے محکمے واٹر بورڈ کا ہے اب ادارے مافیا کی صورت بن چکی ہیں سیاسی بنیادوں پر ھائیڈرنٹس دیئے گئے گورنر سندھ ، رینجرز ، سیاستدان اور بلدیات کے منسٹر ڈالرز میں رقم بناتے ہیں کراچی میں پانی کی کمی کے باوجود آج تک کوئی نہیں مرا پہلے 3500 روپے کا ٹینکر ملتا تھا اب 15 ہزار
روپے کا ملتا ہے انہوں نے کہا کہ ایک ھائیڈرنٹس کی کمائی 15 لاکھ روپے روزانہ ہے جو گزشتہ 15 سالوں سے چلانے والا کتنے رقم کا مالک ہے ۔

واٹر بورڈ ، پولیس ، کے ایم سی کو غیر سیاسی بنانے کی ضرورت ہے اس صورت حال کو دیکھ کر سندھ حکومت مصلحت چھوڑ کر ایمانداری کے ساتھ مسئلے کو حل کرے تو ملک کے دو ناسور میں ایک دہشت گردی دوسرا کرپشن ہے اگر ان مسائل پر قابو پایا گیا تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ پورے کراچی کا ایک ہی مسئلہ ہے ایک خالص انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے پورا کراچی پانی سے محروم ہے وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے اقدامات کرے ۔

سینیٹر عتیق نے کہا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے K4 پراجیکٹ کی تکمیل بے حد ضروری ہے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جائے کہ یہ منصوبے اتنے سالوں سے زیر التواء کیوں رہا ہے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بحث سمیٹھتے ہوئے کہا کہ پانی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے جسے فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے انہوں نے کہا کہ پانی کی فراہمی صوبائی معاملہ ہے مگر کراچی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے K4 منصوبے پر 50 ملین روپے جلد از جلد کراچی واٹر بورڈ کو مل جائیں گے اس سلسلے میں سندھ حکومت بھی جلد از جلد فنڈز فراہم کرے ۔

سندھ حکومت نے ابھی تک مزید رقم کی ڈیمانڈ نہیں کی ہے وزیر اعظم نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے بہترین منصوبہ بندیا ور شفافیت ضروری ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے میٹروبس یا اورنج ٹرین کے لئے کوئی رقم نہیں دی ہے صرف اسلام آباد کے ٹریک کے لئے رقم دی ہے وفاقی حکومت پاکستان کے تمام اکائیوں کو ایک نظر سے دیکھتی ہے اور پورے پاکستان کی کی ترقی کے لئے اقدامات کر رہی ہے

متعلقہ عنوان :