آئین کے اصل محافظ ہم نہیں بلکہ وہ ہیں جن کو عوام منتخب کرکے پارلیمان میں لاتی ہے،سپریم کورٹ

بدھ 6 مئی 2015 14:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت آج (جمعرات کو ) بھی جاری رکھے گی ۔ حامد خان اپنے دلائل مکمل کریں گے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے بنیادی فیچر کون سے ہیں اگر بنیادی آئین کا ڈھانچہ موجود ہے تو اس میں کیسے ترمیم کی جاسکتی ہے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ آئین کے محافظ صرف ہم ہیں اصل محافظ وہ ہیں جن کو عوام منتخب کرکے پارلیمان میں لاتی ہے نمائندے عوام کی منشاء کے مطابق ترمیم کریں تو وہ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین میں ترمیم سے پہلے عوام کی رائے جاننا ضروری ہے آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ نے ایک ترمیم کے ذریعے حاصل کیا کیا آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کسی مینڈیٹ کے بغیر کی جاسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دو دنوں سے ٹی وی چینلز پر آئین پر ہونے والی بحث سے بہت لطف اندوز ہورہا ہوں ایسے لوگ بحث کررہے ہیں جن کو آئین سے سرے سے پتہ ہی نہیں ہے ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت آئین کی محافظ ہے کثرت رائے سے ہونے والے فیصلے کو ہم کس طرح رد کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔

سانگھڑ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو موزوں بحث بناتے ہوئے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم نہیں کی جاسکتی بھارتی آئین کا انحصار بھی اسی ڈھانچے پر ہے پارلیمانی کمیٹی کا ججز کے تقرر میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اگر اس طرح کردار دیئے جاتے رہے تو کل وہ اپنے فیصلوں میں بھی کردار مانگیں گے تو اس وقت عدلیہ کیا کرے گی ۔

اس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کبھی کسی نے پارلیمنٹ کے ترمیم کے کردار کو چیلنج نہیں کیا آج یہ چیلنج کیا گیا ہے تو اس کو کس طرح سے اس کا فیصلہ کرینگے حامد خان نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ اب تک کی ہونے والی ترامیم کیا کسی بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم تو نہیں کیونکہ اگر بنیاد نہیں ہوگی تو عمارت بھی کھڑی نہیں رہ سکتی ۔ بنیادی ڈھانچہ اور عدلیہ کی آزادی یہ دو ایسے کردار ہیں جن کو اگر نکال دیاجائے تو کوئی بھی کام اپنی اصل حالت میں قائم نہیں رہے گا ۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ہم پہلے اٹھارہویں ترمیم پر بحث مکمل کرینگے اس کے بعد اکیسویں ترمیم پر بحث کا آغاز ہوگا ۔ آپ کوشش کریں اگلے روز وقفے سے قبل اپنے دلائل مکمل کریں حامد خان نے کہا کہ بنیادی آئینی ڈھانچے کا معاملہ پارلیمنٹ کمیٹی کی ججز کی تقرری میں کردار اتنے وسیع موضوع ہیں کہ جن پر بحث طویل ہوسکتی ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس سوال کا جواب دیں کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کسی مینڈیٹ کے بغیر لائی جاسکتی ہے کیا یہ موجودہ اسمبلی ایسا کرسکتی ہے کیا اس کے لئے نئی اسمبلی کی ضرورت نہیں پڑے گی پارلیمنٹ اور دستور ساز اسمبلی میں فرق کیا جانا ضروری ہے موجودہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا تو اختیار ہے مگر آئین سازی کا نہیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قوم نئی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین تبدیل کرسکتی ہے آئین کو تبدیل کرنے میں کوئی پابندی نہیں ہے اس پر حامد خان نے کہا کہ یہ تو معاملات دیکھنے ہونگے کہ کس طرح یہ تبدیلیاں ہوسکتی ہیں ۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ یہ عدالت آئین کی محافظ ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ہم کثرت رائے سے ہونے والے فیصلوں کو مسترد یا رد کرسکتے ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئین میں ترمیم سے پہلے عوام کی رائے جاننا بے حد ضروری ہے کیونکہ جب تک ان کی رائے معلوم نہیں ہوگی تبدیلی کیسے آئے گی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ آئین کے محافظ صرف ہم ہی ہیں اصل محافظ وہ ہیں جن کو عوام منتخب کرکے پارلیمان میں لاتی ہے ۔

نمائندے عوام کی منشاء کے مطابق ترمیم کریں تو وہ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں حامد خان نے پارلیمانی کمیٹی کے کردار عدلیہ کی آزادی بارے کئی دیگر ممالک کے عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے بھی دیئے اور اس بات پر اصرار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار ججز کے تقرر میں عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے اور عدلیہ کی آزادی کی ضمانت بنیادی آئینی ڈھانچے میں دی گئی ہے آئین کے دیباچے آرٹیکل 2Aسمیت کئی دیگر آرٹیکلز میں اس کی ضمانت دی گئی ہے یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے مگر اس میں بھی اس کا کردار محدود ہے لامحدود نہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مادر پدر ترمیم کرلے اور عوام بھی اس کو قبول کرے ابھی ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث مقدمے کی مزید سماعت آج جمعرات تک کیلئے ملتوی کردی گئی اور حامد خان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وقفے سے پہلے وہ اپنے دلائل مکمل کریں آرٹیکلز 225پر دلائل دیں اور اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم پر دلائل مکمل ہونے کے بعد ہی اکیسویں ترمیم پر دلائل کا آغاز کیاجائے گا