دیہی علاقوں میں جرگہ نظام افسوس ناک ہے ، جرگہ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں ، بچوں کے حقوق کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام دستیاب وسائل کو بروے کار لانا ہوگا

صدر ممنون حسین کی وفاقی محتسب کی قومی کمیٹی برائے اطفال کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو

منگل 5 مئی 2015 20:43

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 مئی۔2015ء ) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ دیہی علاقوں میں جرگہ کا نظام افسوس ناک ہے ، لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جرگہ ان کے مسائل کا حل نہیں ہے ، بچوں کے حقوق کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام دستیاب وسائل کو بروے کار لانا ہوگا۔ وہ منگل کویہاں ایوان صدر میں وفاقی محتسب کی قومی کمیٹی برائے اطفال کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کر رہے تھے ۔

صدر مملکت نے کہا کہ بچوں کو بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں جبکہ ان کے حل کے لیے ہمارے پاس وسائل محدود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں لوگوں کا جرگوں کے فیصلے ماننا افسوس ناک ہے۔ساٹ دیہی علاقوں میں ابھی تک جرگہ کا نظام ہے لوگ ان کی بات مانتے ہیں اور قوانین پر عمل نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

اس کے متعلق بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس پہلو کو کس طرح ٹھیک کیا جائے اور کن لوگوں سے رابطہ کرکے یا کیا ترویج کرکے لوگوں کو یہ بتایا جاسکے کہ جرگے ان مسائل کا حل نہیں ہیں، یہ غیر قانونی چیز ہے اور ان جرگوں کو فیصلے کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔

قبائلی علاقوں کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ فاٹا میں والدین کا بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانا افسوس ناک ہے۔ساٹ ( یہ اتنی گمراہی کہاں سے آگئی ہے، یہ کون لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے، کیا انھیں یہ خیال نہیں کہ ان کے بچے معذور ہو جائیں گے۔ کمیٹی اس معاملہ پر ماہرین سے رائے لے اس کے بعد اس مسئلہ پر بات کی جائے گی۔

صدر مملکت نے بچوں کے حقوق کے لیے یونیسف کے ساتھ مل کر کام کرنے پر وفاقی محتسب سمیت تمام صوبائی محتسب کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وفاقی محتسب کی قومی کمیٹی برائے اطفال کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام شروع ہوا ہے۔ جبکہ دنیا میں اس پر کافی عرصے سے کام جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین کی جو سفارش کرنی ہیں وہ اپنے ملک کو دیکھ کر کرنی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ جو اچھی چیزیں ہیں وہ ضروراس میں شامل کرنی چاہیں لیکن تمام سفارشات اپنے ملک کے حالات کو مد نظر رکھ کر دی جائیں۔ انھوں نے ہدایت کی کہ اس معاملے میں علماء کی رائے کو بھی شامل کیا جائے اور کمیٹی بہت غور کے بعد اپنی سفارشات تیار کرے۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ جہاں انکی مدد کی ضرورت ہوگی وہ کریں گے۔

متعلقہ عنوان :