لو گ آئین میں ترمیم کرتے ہیں ،پھر بعد میں رونا شروع کردیتے ہیں ٗ ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر بعد کہتے ہیں مجبور تھے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ

اختیارات کا ایک ہاتھ میں ہونا خطرناک ہو سکتا ہے ، ہمارے آئین میں بھی سیکولرازم کا تھوڑا بہت عنصر شامل ہے، چیف جسٹس جب پارلیمنٹ انگھوٹھے کے نیچے تھی تو سپریم کورٹ نے راستہ نکالا ٗعدالت عظمیٰ کے ججز کے ریمارکس ہم نے آئین کو دیکھنا ہے ، ماضی کے دانشوروں کی ڈاکٹرائن کوئی معنی نہیں رکھتی،جسٹس جواد ایس خواجہ

منگل 5 مئی 2015 17:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حامد خان کو بدھ تک دلائل مکمل کر نے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لو گ آئین میم ترمیم کرتے ہیں پھر بعد میں رونا شروع کردیتے ہیں ٗ ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر بعد کہتے ہیں کہ ہم مجبور تھے ، جب پارلیمنٹ انگھوٹھے کے نیچے تھی تو سپریم کورٹ نے راستہ نکالا ۔منگل کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل بینچ نے 18ویں اور 21 ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت کی ۔

ججز پارلیمانی کمیٹی کو تحلیل کرنے کے حوالے سے حامدخان نے دلائل دئیے اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ کرسکتی ہے تو کیایہ درست ہوگا ؟ تقسیم اختیارات کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے ، چیزیں اس وقت مختلف ہوتی ہیں جب پارلیمنٹ متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتی ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہمارے اور انڈیا کے آئین کا کوئی موازنہ نہیں ، حامد خان نے کہ اکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی پارلیمنٹ کو ترمیم کو کالعدم قرار دیااس پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کن بنیادوں پر آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا حامد خان نے جواب دیا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بنیادی خدوخال اور بنیادی ڈھانچہ کی بنیاد پر ایسا کیا ۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے ، ماضی کے دانشوروں کی ڈاکٹرائن کوئی معنی نہیں رکھتی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے بھارتی آئین کے نمایاں خدوخال سے متعلق استفسار پر درخواست گزار حامد خان نے کہاکہ سیکولرازم ، وفاق اور پارلیمنٹ کی بالادستی بھارتی آئین کا خاصہ ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں بھارت اور پاکستان کے آئین کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں ۔

دونوں ممالک کے آئین میں مختلف باتیں کی گئی ہیں ۔ جسٹس ثاقب نثار نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ بتا دیں آئین کے کونسے جزو ایسے ہیں جن کیخلاف آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی نجی ٹی و ی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ اختیارات کا ایک ہاتھ میں ہونا خطرناک ہو سکتا ہے ، ہمارے آئین میں بھی سیکولرازم کا تھوڑا بہت عنصر شامل ہے ، لوگ آئینی ترمیم کی حمایت کرتے ہیں ٗ منظوری کے بعد رونا شروع کر دیتے ہیں۔ فل بینچ نے حامد خان کو(آج)بدھ تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :