سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی

منگل 5 مئی 2015 12:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی‘ چیف جسٹس ناصر الملک نے سماعت میں لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر دلائل شروع نہ کریں بلکہ مکمل کریں‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ لوگ آئینی ترامیم کی حمایت کرتے ہیں منظوری کے بعد روتے ہیں‘ اختیارات کا ایک ہاتھ میں ہونا خطرناک ہوسکتا ہے‘ اختیارات کی تقسیم سے ادارے ایک دوسرے پر چیک رکھتے ہیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں اٹھارویں و اکیسویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل بینچ نے سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے آئین میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ لوگ پہلے آئینی ترامیم کی حمایت کرتے ہیں پھر منظوری کے بعد روتے ہیں۔

اختیارات کا ایک ہاتھ میں ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اختیارات کی تقسیم سے ادارے ایک دوسرے پر چیک رکھتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ بتائیں کہ ہمارے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے ماضی کے دانشوروں کی ڈاکٹرین کوئی معنی نہیں رکھتی‘ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا آئین کا بنیادی ڈھانچہ کوئی ڈاکٹرین ہے‘ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے حامد خان سے استفسار کیا کہ ہمیں بتا دیں کہ ہمارے آئین کے بنیادی خدوخال کتنے ہیں‘ کونسے بنیادی خدو خال ہیں جن کے خلاف آئینی ترامیم نہیں ہوسکتیں جس پر حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کہتی ہے اسے آئینی ترامیم کرنے کا مکمل اختیار ہے کل اس حوالے سے مزید دلائل دونگا جس پر چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیئے کہ دلائل شروع نہ کریں بلکہ مکمل کریں۔

ہوسکتا ہے آپ کل مصروف ہوجائیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آرٹیکل 239ذیلی شق کو کبھی کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ اکیسویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل بدھ تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ عنوان :