پاکستان میں 122کالعدم تنظیمیں ہیں جن میں 74پر اقوام متحدہ جبکہ 60پر حکومت پاکستان اور 12 تنظیموں پر دونوں نے پابندی عائد کررکھی ہے، گزشتہ چار ماہ کے دوران نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے 3ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشن اور 37 ہزار سیکیورٹی آپریشن کئے گئے جن میں 37666 افراد گرفتار ہوئے، تین ماہ کے دوران9 کروڑ موبائل سموں کی صدیق کی گئی، کراچی آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ میں 84فیصد، قتل کے واقعات میں 38فیصد، بھتہ خوری میں 37فیصد جبکہ ڈکیتی میں 23فیصد کمی آئی، کل 4966افراد گرفتار کئے گئے جن میں 669انتہائی مطلوب دہشت گرد شامل ہیں،صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں پاک فوج نے اہم کامیابیاں حاصل کیں، کرپشن کے خاتمے کیلئے ہم سب کو ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا سینیٹ میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اظہار خیال

پیر 4 مئی 2015 23:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔4 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں 122کالعدم تنظیمیں ہیں جن میں 74پر اقوام متحدہ جبکہ 60پر حکومت پاکستان اور 12 تنظیموں پر دونوں نے پابندی عائد کررکھی ہے گزشتہ چار ماہ کے دوران نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے 3ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشن جبکہ 37 ہزار سیکیورٹی آپریشن کئے گئے جن میں 37666 افراد گرفتار ہوئے، تین ماہ کے دوران9 کروڑ موبائل سموں کی صدیق کی گئی، کراچی آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ میں 84فیصد، قتل کے واقعات میں 38فیصد، بھتہ خوری میں 37فیصد جبکہ ڈکیتی میں 23فیصد کمی آئی، کل 4966افراد گرفتار کئے گئے جن میں 669انتہائی مطلوب دہشت گرد شامل ہیں، پنجاب میں لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر 1132 افراد کو گرفتار کیا گیا، سائبر کرائم بل پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اتفاق رائے سے فیصلہ کریں گے، دہشت گردوں کو فنڈنگ کے 141کیسز پکڑے اور 10کروڑ روپے کی رقم ضبط کی۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو سینیٹ میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بارے بحث سمیٹ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن ہماری رگوں میں رچ بس گئی ہے یہاں حلال حرام کی تمیز ختم ہو گئی ہے جبکہ اس کے خاتمے کی ابتداء پارلیمنٹ میں کی جا سکتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ مجموعی طور پر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، اس کے خاتمے کیلئے سینیٹ سے زیادہ بہتر کوئی اور فورم نہیں ۔

اس پر سینیٹروں نے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر بات کی جبکہ اس حوالے سے ایک اخلاقیاتی کمیٹی کی تشکیل دی جا رہی ہے، جس کو تمام ارکان پنی اپنی تجاویز دے سکتے ہیں۔ مزید برآں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سینیٹر ستارہ ایاز کی قرار داد پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے طالبان سے مذاکرات کی پالیسی اپنائی جبکہ اس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردوں کے واقعات میں کسی حد تک کمی ضرور آئی مگر مجموعی طور پر مذاکرات کا عمل بھی جاری رہا جبکہ دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات بھی جاری رہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا جبکہ حکومت کو شواہد ملے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے میں وہی لوگ ملوث تھے جو حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک جانب طالبان حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تمام معاملات حل کرنے کی حامی ہو رہے تھے جبکہ ساتھ ہی عالمی میڈیا پر تشدد کی روش پر قائم رہنے کے اعلانات بھی ہو رہے تھے جس پر حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا حالانکہ حکومت پر الزامات بھی لگائے گئے کہ ہم آپریشن نہیں کرنا چاہتے، مگر جب فوج نے سویلین قیادت کی سرپرستی میں آپریشن ضرت عضب شروع کیا تو دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورک ٹوٹ گئے، بلاشبہ آئی ڈی پیز کے ساتھ کچھ دہشت گرد موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن میں کچھ ہمسایہ ملک میں چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کیلئے 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ظالمانہ حملہ کیا، جس سے پورا ملک لرز گیا۔ تاہم واقعہ کے دوسرے روز ہی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی اور ایک اپوزیشن کی جماعت کے مشورے پر وزیر داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی تا کہ دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کمیٹی میں دینی مدارس سمیت آج مختلف معاملات شدید اختلافات تھے تاہم سات روز کے دوران گیارہ گھنٹے روزانہ کام کر کے ایک بیس نکاتی قومی لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ یہاں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عمل کوکون اپنائے گا حالانکہ اس کو تمام سیاسی جماعتیں اپنا چکی ہیں جبکہ میں یہ واضح کر دوں کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو بنانے کا اصل کریڈٹ اپوزیشن کو جاتا ہے جبکہ وزیر داخلہ تو صرف کو آرڈینیٹر ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے 16ذیلی کمیٹیاں بنیں جن میں 11کمیٹیاں وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں جبکہ ایپکس کمیٹی کا جو تصور پیش کیا گیا تھا وہ اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہیں، ایپکس کمیٹیاں صوبائی سطح پر بہت اچھا کام کر رہ یہیں۔ یہاں یہ واضح کر دوں کہ فوجی و غیر فوجی وفاقی ادارے صوبائی حکومتوں کو رپورٹ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جب جون 2013 میں برسراقتدار آئے تو یومیہ بنیادوں پر 4 سے 5 بم دھماکے ہوتے تھے جبکہ آج وہ صورتحال نہیں، اس کا کریڈٹ پارلیمنٹ کو جاتا ہے جبکہ ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف تمام سیاستدان اکٹھے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جب طالبان سے مذاکرات شروع کئے تو کچھ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے خلاف تھیں مگر انہوں نے اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جبکہ اسی طرح جب مذاکرات ناکام ہونے پر فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو ایسی سیاسی قیادت کے پاس خود جا کر انہیں قائل کیا جو فوجی آپریشن کے خلاف تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان صرف حکومت یا پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ملک میں مکمل امن قائم نہیں ہوا جبکہ نہ ہی ہمارے دشمن مکمل ختم ہو ئے ہیں کچھ مارے گئے بہت سارے ابھی زندہ ہیں، وہ ہمارا مقابلہ روایتی طریقے سے نہیں کرتے بلکہ عبادت گاہوں اور سکولوں پر حملے کرتے ہیں، خدانخواستہ ایسے واقعات ہوں گے کیونکہ جنگ جاری ہے، یہ دشمن فوج سے لڑنے والے نہیں بلکہ یہ خواتین اور بچوں سے لڑتے ہیں، ہم نے جو بھی کامیابی حاصل کی وہ ہمارے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ملی جبکہ اس کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملات کوئی چوکے چھکے مارنے والی بات نہیں ہوتی اس لئے پریس کانفرنسیں کم کرتا ہوں، جب وزیر داخلہ بنا تو یہ معلوم کرنے میں دقت پیش آئی کہ پاکستان میں کتنی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں 33 انٹیلی جنس ایجنسیاں موجود ہیں جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا، موجود حکومت نے ان کے آپس میں رابطے کا طریقہ کار بنایا جس کی وجہ سے شکار پور سندھ میں دہشتگردی کے واقعہ کے ذمہ داران کی گرفتاری سمیت متعدد کامیابیاں حاصل کیں ، انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران تین ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشن ہوئے جبکہ ان میں 37666 گرفتاریاں ہوئیں جبکہ یہ واضح ہو کہ ان میں کوئی لاپتہ افراد شامل نہیں ، چار ماہ میں 37 ہزار سے زائد قومی آپریشن ہوئے ، چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ آستینیں چڑھا کر تقریریں کرنا بہت آسان ہے جبکہ سیکیورٹی کی ایک ایک اینٹ رکھ کر عمارت بنانا بہت مشکل کام ہے ۔

وزیر داخلہ بننے کے بعد جو بھی اہم اجلاس ہوا سیکیورٹی اداروں نے کہا کہ موبائل فون کی سم دہشتگردی میں استعمال ہوتی ہیں حالانکہ گزشتہ حکومت نے بھی غیر قانونی سمیں بند کرنے کی کوشش کی ہم نے ڈیڑھ سال میں 14 کروڑ غیر قانونی سمیں بند کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ 10 کروڑ غیر قانونی سمیں اب بھی چل رہی ہیں جبکہ یہ بھی پالیسی بنائی کہ آئندہ کوئی بھی سم بائیو میٹرک کے بغیر جاری نہ ہو ۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے موبائل کمپنیوں کی بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور متعلقہ کمیٹی نے کاہ کہ غیر قانونی سمیں بند کرنے کا کام ڈیڑھ سال میں مکمل ہوگا جبکہ میں ایک ماہ کی مدت تک ڈٹ گیا جس پر موبائل کمپنیوں نے اپنا سستم پاکستان سے لپیٹنے کی دھمکی دیدی ۔ اس کی وجہ سے تین ماہ کا وقت دیا گای اور تین ماہ میں موبائل کمپنیوں نے دس کروڑ میں 9 کروڑ کی تصدیق کرلی جبکہ بقیہ ایک کروڑ سمیں اداروں اور کمپنیوں کی ملکیت ہیں جن سے خطرہ نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب سے کراچی میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کیا ابتک ٹارگٹ کلنگ میں 84 فیصد قتل کے واقعات میں 38 فیصد ، بھتہ خوری 37اور ڈکیتی کی وارداتوں میں 23 فیصد کمی آچکی ہے ۔ کراچی آپریشن کے دوران 4966 افراد گرفتار کیے گئے جبکہ ان 20 فیصد دہشتگرد ہیں ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر 1132 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 1627 الیکٹرانک آلات پکڑے گئے ۔

اس حوالے سے میڈیا مالکان سے ملاقات کرکے اعتماد میں لیا ، چار ماہ کے دوران میڈیا نے دہشتگردوں کا مکمل بائیکاٹ کررکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کے 141 واقعات پکڑے گئے اور 10 کروڑ روپے کی رقم پکڑی تاہم اس پر ابھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی میڈیا کے حوالے سے ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔

وزارت آئی ٹی نے ایک سائبر سی آرا آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہوگا ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اتفاق سے ہوگا کیونکہ یہ نیشنل ایکشن پلان نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان ہے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے بھی کمیٹی کام کررہی ہے جبکہ افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے وزارت سیفران نے ایک پالیسی پیپر تیار کرا کے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کردی ۔

افغان حکومت نے تین ماہ کا وت مانگا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ مہاجرین کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور افغان حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات بھی خراب نہ ہوں ۔ نیکٹا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کو فعال کرنے میں فنڈز کی ضرورت ہے جبکہ سمری وزیراعظم کو بھجوا دی ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کا مسئلہ بڑا احساس ثابت ہوا جبکہ دسمبر 2014 سے قبل پر بھی معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں کالعدم تنظیمیں کتنی ہیں فوج کے پاس کوئی اور فہرست تھی جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی اور فہرستیں تھیں مگر آج ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان قانون کے تحت 60 کالعدم تنظیمیں جبکہ اقوام متحدہ کے قانون کے تحت 74 کالعدم تنظیمیں ہیں جن میں 12 مشترکہ ہیں جبکہ ان تنظیموں کے تمام افراد وک فورتھ شیڈول میں ڈھال کر مانیٹرنگ کی جارہی جبکہ ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں خبردار کرتا ہوں کہ کوئی پاکستانی ان کے ساتھ تعاون اور مدد نہ کرے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چند گنے چنے مدارس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کے دہشتگردوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق کے شواہد ملے مگر یہ شواہد ناکافی تھے ۔ اگر ریاست عوام وک دینی تعلیم دینے کی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی جبکہ اگر دینی مدارس نے یہ خلا پر کر لیا تو ہمیں ان پر انگلیاں نہیں اٹھانی چاہئیں ۔ دینی مدارس کے کئی تنظیمیں دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ ہیں ہمیں تمام مدارس کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے ۔

امریکہ میں ایک اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت اوباما کررہے تھے اس میں ایک پاکستانی این جی او کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے ماخذ دینی مدارس ہیں جس پر میں نے احتجاج کیا ۔ ہمیں اس اصول پر چلنا ہوگا کہ تمام فرقوں ، سیاسی جماعتوں اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو دہشتگردی کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتیں جو کچھ کررہی ہیں وہ عین اسلام ہے جبکہ اس کے بعد ایوان نے ایک ترمیم کے ساتھ ایوان نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کی کہ حکومت ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرے ۔

اس کے ساتھ ہی ایوان نے سنییٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی پیش کردہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے حکومت کی جانب سے مزید اقدامات کرنے کیلئے قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور کرلی جس کے بعد چیئرمین رضا ربانی کے سینیٹ کا اجلاس آج سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کردیا ۔