گوادرہزاروں سالوں سے بلوچوں کا مسکن ہے ، آغا حسن بلوچ

ہماری زبان ، ثقافت ، قومی تشخص بقاء کے حوالے سے جو خدشات و تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے،بیان

پیر 4 مئی 2015 21:46

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء ) گوادر میگا پروجیکٹس سے متعلق بلوچ قوم کے خالصتا بنیادی مسائل جو اہمیت کے حامل ہیں کہ گوادر پورٹ اور گوادر ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کے تمام تراختیارات بلوچستان کو دیئے جائیں گوادر ہزاروں سالوں سے بلوچوں کا مسکن ہے ہماری زبان ، ثقافت ، قومی تشخص بقاء کے حوالے سے جو خدشات و تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے تاکہ بلوچوں پر یہ بات یقینی ہو کہ ہم اپنے بحر بلوچ میں اقلیت میں نہیں بدلیں گے اور حقیقی ترقی و خوشحالی کے تمام تر ثمرات مقامی بحر بلوچ کے فززندوں کو ملنے چاہئیں ریکوڈک میگا پروجیکٹس بارے نااہل حکمرانوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاہدات کریں وکلاء کے ذریعے بریفنگ عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کمیشن کک بیگز اور بلوچ وسائل کو کوڑیوں کے داموں فروخت کرنے کے ہتھکنڈے ہیں جعلی اور دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے بلوچستان پر براجمان حکمران اقرباء پروری ، کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ و آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر آغا حسن بلوچ نے اپنے بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ ہم کبھی بھی ترقی و خوشحالی کیلئے پروجیکٹس کی مخالفت نہیں کی شرط یہ ہے کہ میگا پروجیکٹس سے مقامی بلوچوں کے معاشی ، معاشرتی اور سماجی زندگی میں مثبت اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں تاکہ بلوچستانیوں کو اعتماد ہو کہ میگا پروجیکٹس سے ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آ سکتی ہیں گوادر میگا پروجیکٹس کے حوالے سے پارٹی جو بلوچوں کی سب سے بڑی قومی عوامی جماعت ہے اور گوادر کے غیور بلوچوں نے صوبائی و قومی اسمبلی میں پارٹی کو مینڈیٹ دے رکھا ہے اور اس حوالے سے بھی پارٹی ذمہ داری ہے کہ بلوچ عوام کے توقعات پر پورا اترتے ہوئے ان کے حقوق اور بقا کا تحفظ یقینی بنائیں گوادر میگا پروجیکٹ کے حوالے سے حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فورا سے بیشتر گوادر پورٹ اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تمام تر اختیارات مرکز سے بلوچستان کو دیں تاکہ عوام سے ماضی میں جو ناانصافیاں کی گئیں جو خدشات و تحفظات ہیں وہ بھی دور ہو سکیں بلوچوں کا خالصتا بنیادی اور اہمیت کا حامل مسئلہ یہی ہے کہ ہماری حق ملکیت ساحل وسائل پر ہمیں دسترس حاصل ہو اور اختیارات بلوچستان کے ہاتھوں میں ہوں انہوں نے کہا کہ اب اکیسویں صدی میں گوادر کے عوام انسانی بنیادی ضروریات اور صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اہم عہدوں پر اکثریتی ملازمین کا تعلق گوادر سے نہیں اور نہ ہی مکران بلوچستان سے ہے انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ گوادر میں عوام کے بنیادی مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے ، سکول ، کالجز ، یونیورسٹیز ، ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز ، ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کیلئے ادارے کا قیام کے علاوہ انفراسٹرکچر جو اب تک بنائی نہیں گئی جس کی وجہ سے ترقی و خوشحالی کا دعوے محال ہی ثابت ہو سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ حقیقی ترقی و خوشحالی کیلئے لازم ہے کہ تمام بنیادی مسائل فوری طور پر حل ہوں بلوچ ماہی گیر جو اب بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے حوالے سے بھی فوری اقدامات کئے جائیں کیونکہ معاشی تنگ دستی کا ماہی گیر سامنا کر رہے ہیں ریکوڈک سمیت دیگر بلوچ وسائل مال غنیمت نہیں جسے جعلی حکمران کوڑیوں کے داموں سودے کرتے پھریں 2013ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے بلوچستان میں جو حکومت قائم کی گئی ہے یہ بے اختیار ، کرپشن ، کمیشن ،کک بیگز کے حصول کے خاطر سرگرداں ہیں اور وکلاء کے ذریعے ریکوڈک کے بارے میں بریفنگ دینے سے یہ امر یقینی ہو چکا ہے کہ حکمرانوں نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر ریکوڈک کا سودا کرنے کی تیاریاں ، پالیسیاں مرتب کی جا چکی ہیں انہیں یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ اتنے بڑے میگاپروجیکٹس یا بلوچ وسائل کا سودا کریں انہوں نے دو سالوں میں صرف بلوچوں کے اہم جملہ مسئلہ ہے ایک لاپتہ بھی بازیاب نہ ہو سکا بلوچستان کا بحران مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے بلوچ مائیں بہنیں اپنے پیاریوں کی بازیابی کی منتظر ہیں نام نہاد قوم پرست صرف لفاظی بیانات تحریر و تقریر اور دعوؤں تک محدود ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو چکا ہے بلوچستان کا نہیں بلکہ ان کے کمیشن ، لوٹ ماری ، اقرباء پروری ، کرپشن اور بلوچوں کے وسائل کا سودا لگا کر کک بیگز کے حصول تک محدود ہو چکے ہیں بلوچستان کی اجتماعی قومی مفادات کو بھول کر گروہی ذاتی مفادات اور موقع پرست ثابت ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچوں کے ہر طبقہ فکر استحصال کا شکار ہو چکا ہے اور حکمران اب بھی اپنے بیانات ہی کے ذریعے عوام کو طفیل تسلیاں دے رہے جبکہ اصل حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان کے بنیادی مسائل تک حل نہیں ہو سکے ہیں تعلیمی انقلاب لانے والوں دعویدار بلوچ نوجوانوں کیلئے تعلیمی اداروں میں مسائل کھڑے کر رہے ہیں جب میرٹ کے دعویداروں نے خود سیاسی طور پر غیر بلوچوں کو درسگاہوں ، یونیورسٹیز میں اہم عہدوں پر تعینات کیا اور 600سے زائد بلوچ علاقوں کے لیکچراز کے آسامیوں کو ختم کر دیا گیا یو ایس ایڈ کی جانب سے بلوچ علاقوں کیلئے ریڈنگ پروجیکٹس کو سیاست کی نظر کرنا اور بلوچ علاقوں میں رکاوٹیں ڈالنا ، میرٹ کی آڑ میں درسگاہوں میں سیاسی بنیادوں پر فیصلوں پر مزید تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کر دیا گیا اب جبکہ بلوچستان یونیورسٹی میں اساتذہ کرام کے بھرتیوں کے حوالے سے جو این ٹی ایس ٹیسٹ لیا گیا جس میں بلوچ نوجوانوں اور خواتین نے این ٹی ایس ٹیسٹ میں زیادہ نمبر حاصل کئے اور میرٹ پر جب بلوچ فرزند آگے آئے اور این ٹی ایس جیسے ادارے میں بھی بلوچوں نے جو برتری حاصل کی یہ بھی گورنر و وزیراعلیٖ کو ایک آنکھ نہیں بہائی اور انہوں نے منظم سازش کے ذریعے بلوچستان یونیورسٹی میں سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی تاکہ میرٹ پر جو لیکچراز ، پروفیسرز کامیاب ہوئے ہیں ان کی کامیابی کو ناکامی میں بدلا جا سکے اور این ٹی ایس کے منٹس کے نمبر پر کم کئے گئے اسی طرح بلوچستان میں اساتذہ کی جو خالی پوسٹییں تھیں ان پر تعیناتی کیلئے جو این ٹی ایس ٹیسٹ میں جو نمبرز کا شرح تھا اس بھی کم کر دیا گیا تاکہ مختلف حیلے بہانوں ، سلیکشن کمیٹیوں اور انٹرویوز کے ذریعے میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں اور بلوچ فرزندوں کا راستہ روکا جائے جعلی حکمران ہرجگہ جعل سازی کے ذریعے اقدامات کر رہے ہیں لیکن تاریخ انہیں ہر گز معاف نہیں کرے گی بلوچستان میں عام انتخابات کے ذریعے قومی حکومت نہیں بلکہ کرپٹ بلوچ دشمن حکمران براجمان ہیں -