سینیٹ ، اداروں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بحث

اراکین کا قانون کی بالادستی اور اداروں کو مستحکم کرنے پر زور کرپشن کلچر کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ کو خود احتسابی کیلئے پیش کرنا ہوگا،سینیٹرز کا اظہار خیال

پیر 4 مئی 2015 21:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) سینیٹ اجلاس میں مختلف محکموں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بحث کے دوران قانون کی بالادستی اور اداروں کو مستحکم کرنے پر زور دیاگیا،کرپشن کے کلچر کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ کو خود احتساب کیلئے پیش کرنا ہوگا،کرپشن کے خاتمے کیلئے ٹائم فریم مقرر کیا جائے اور تمام زندگی کے ہر شعبہ میں کرپشن سے وابسطہ افراد کا کڑا احتساب کیا جائے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ اداروں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹرین خود احتساب کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں،ضیاء الحق کے دور میں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا،کرپشن کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیاگیا،ہر محکمے میں کرپشن ہورہی ہے لیکن ایگزیکٹو کلاس کی سطح پر ہے،نیب انٹی کرپشن اور دیگر ادارے کرپشن روکنے کیلئے بنائے گئے لیکن خود کرپشن میں ملوث ہیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں ہر فورم پر کرپشن کا الزام لگا کر اپنی سیاست کو چمکانے ہیں۔ پاکستان غیر مؤثر قوانین کا قبرستان بن چکا ہے قوانین میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے،نیب ایکٹ قوانین میں کاسمیٹک تبدیلی تو لاسکتے ہیں لیکن سرجری ممکن نہیں،پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے جو عدالتوں کو بھجوائے گئے کیسز کی نگرانی کرے،ججوں کو کمپیوٹر تک چلانا نہیں آتا،وائٹ کالر کرائم کی تحقیق نہیں کرسکتے،ان کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں کرپشن کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں کرپشن رواج بن چکا ہے،ہر دور میں کرپشن کے خاتمے کیلئے قوانین کی بات کی گئی،1947ء میں جب ایکٹ بنا تو اس پر عملدرآمد نہ ہوا،جنرل ایوب کے زمانے میں صرف سیاسی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جس کا مقصد سیاستدانوں کو باہر کرنا تھا۔میاں نوازشریف کے دور میں نیب بنا تو سیاسی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا،مشرف دور میں بھی نیب کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہوا لیکن دیکھنا ہے کہ ہم کرپشن کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات اٹھارہے ہیں،کرپشن کے خاتمے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے،ایک کرپٹ شخص دوسرے کرپٹ کا دفاع کرتا ہے اور کلین چٹ دے دی جاتی ہے،ایسا قانون بنانا چاہئے کہ بروقت فیصلے ہوں،سرکاری افسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرپشن کا کیس ہو تو اسے گرفتار کیا جائے۔

ملک میں سیاستدانوں، بیورو کریٹوں اور کرپشن کرنے والے لوگوں کو اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے،ملک کا سربراہ نیک سیرت ہوگا تو ملک سے کرپشن ختم ہوسکتی ہے۔سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جس کو موقع ملا اس نے کھل کر کرپشن کی جس کو موقع نہ ملا وہ پارسا ٹھہرا،کرپشن کے خاتمے کیلئے خود احتسابی شروع کرنا ہو گا، کرپشن کے بنگلے بنا کر فخر محسوس کیا جارہا ہے۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ وفاقی حکومت کی توجہ صرف پنجاب پر ہے باقی صوبے احساس محرومی کا شکار ہو رہے ہیں،کرپشن ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے،نیب ،ایف آئی اے اور دوسرے ادارے کرپشن روکنے کیلئے بنائے گئے لیکن کرپشن کنٹرول نہیں ہورہی،دنیا کے ہرملک میں کرپشن ہے لیکن پاکستان میں کلچر بن چکا ہے،ایل این جی برآمد کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن ایل این جی کی امپورٹ کو کس حد تک شفاف بنایا گیا ہے،حبیب بنک کے شیئرز کی فروخت کو کس حد تک شفاف بنایا گیا ہے،پاک چائنا راہ داری پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ اس میں شفافیت کتنی ہے۔

بحث صرف یہ ہے کرپشن ختم کرنے کیلئے اداروں کو فعال بنایا جائے۔سینیٹر صالح شاہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کرپشن کے مختلف القاب میں چھوٹی چھوٹی کرپشن کرنے والے کو چور کہتے ہیں جبکہ کروڑوں اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو کرپٹ سمجھتے ہیں،جب تک اس طرح کے قوانین رہیں گے کرپشن ختم نہیں ہو گی، قوانین کی عملداری سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوگا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ آپ نے چیئرمین شپ کے بعد پہلا کام جو کیا وہ تھا خود احتسابی کا عمل، آپ کی طرح تمام ممبران کواپنے آپ کو خود احتسابی کیلئے پیش کرنا چاہئے،بھٹو کے دور میں جب نیوکلیئر پروگرام شروع کیا تو تمام وابسطہ لوگوں کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئیں جن میں کرپشن کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے5ہزار سے زیادہ اعلیٰ حکام کو گرفتار کیا گیا ۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی قائم کی گئی۔ پارلیمنٹیرین قومی اسمبلی وسینئر اراکین کا احتساب کرے گی۔مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں،سابق ادوار میں کرپشن کیلئے قوانین کو نظرانداز کیاگیا،سیاسی جماعتوں نے اپنی ضروریات کے مطابق کیا،اداروں میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں جس سے ادارے ڈوب گئے،ہمیں کرپشن کے خاتمے پر غور کرنا ہوگا،ایسی مقدس گائے کون ہے جس کے خلاف ملکی قانون لاگو نہیں ہوتا،کوئی معاشرہ کرپشن کے ذریعے زندہ نہیں رہ سکتا،ضرورت ہے کہ کمیٹی بنائی جائے وہ پارلیمنٹیرین کا احتساب کرے اور واضح پیغام اداروں کو جائے کہ وہ آزاد نہیں پارلیمنٹ احتساب کرے گی

متعلقہ عنوان :